حماد بن سلمہ سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام سے متعلق قرآن میں مذکور قصص سے روایت بالمعنی پر احتجاج کرنا منقول ہے۔[1]
اگر قرآن کریم کی ان تمام آیات و واقعات پر غوروفکر کیا جائے تو ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر قائل کا اصل منشا و مقصد اپنی جگہ محفوظ رہے تو الفاظ یا ان کی ترتیب وغیرہ کا اختلاف کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے حرام قرار دیا جائے۔ پس اس سنت الٰہی کو کوئی مذموم یا باعث اشتباہ شئ سمجھنا سراسر غلط ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مخلوق کی صلاحیت اداء و بیان کو خالق کی قدرت و استعداد کاملہ پر کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے؟ بالخصوص اس صورت میں جبکہ قرآن کریم کو پوری امت میں علم و یقین کا جو مقام حاصل ہے وہ ذخیرہ احادیث کو نہیں ہے اگرچہ ائمہ حدیث نے بشری کمزوریوں کے پیش نظر اس میں خطاء کے تمام امکانات کو رفع کرنے کے لئے حتی الوسع احتیاط برتی ہے۔ اس سوال کا جواب ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
اکثر احادیث کے بالمعنی مروی ہونے کی حقیقت:
اگر پورے ذخیرہ احادیث پر نظر کی جائے تو ہمیں اس میں تین قسم کی احادیث ملیں گی:
(1) قولی (2) فعلی اور (3) تقریری
قولی احادیث تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منقولہ احکامات و ارشادات ہیں۔ فعلی احادیث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال کے کوائف کی تفصیل کہا جا سکتا ہے اور تقریری احادیث وہ افعال ہیں جو آں صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کئے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی – صاف ظاہر ہے کہ حدیث کی ان تینوں قسموں میں سے روایت بالمعنی کی ضرورت صرف قولی احادیث کے نقل کرنے میں ہی پیش آ سکتی ہے۔ فعلی اور تقریری احادیث کے نقل کرنے میں تحفظ الفاظ کا اہتمام کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ جو شخص جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی فعل کرتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئے گئے کسی فعل بلا نکیر کو دیکھے گا اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دے گا۔ اس میں مختلف بیان کرنے والوں کے کلمات میں الفاظ کی مختلف ترتیب، تقدیم و تاخیر اور اختصار و تفصیل وغیرہ کی گنجائش موجود ہے۔ یہ عقلاً اور عملاً بعید از امکان ہے کہ چند لوگ کسی واقعہ کو نقل کریں اور ان تمام کے الفاظ یکساں ہوں۔ چنانچہ کسی فعلی یا تقریری حدیث کی روایت میں ’’روایت باللفظ‘‘ اور ’’روایت بالمعنی‘‘ کی تفریق محض مہمل اور بے معنی ہی قرار دی جائے گی۔ پھر جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی احادیث کو نقل کرنے کا تعلق ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان احادیث کے بھی ایک اچھے خاصے حصہ، احادیث قدسیہ، اذان و اقامت کے کلمات، عبادات سے متعلق اذکار اور ادعیہ مسنونہ وغیرہ کو اصل الفاظ و معانی برقرار رکھتے ہوئے بعینہ ہم تک منتقل کر دیا ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ بقیہ قولی احادیث کو نقل کرنے میں بھی
|