Maktaba Wahhabi

271 - 363
و عقائد سے ہو یا فضائل اعمال، ترغیب و ترہیب اور مناقب وغیرہ سے۔ اس کے برعکس علمائے حدیث اور فقہاء کی ایک جماعت ایسی بھی تھی جو بلا تکلف فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب وغیرہ میں ضعیف حدیث کو معتبر و لائق عمل ہی نہیں بلکہ مستحب بیان کرتی تھی۔ بعض علماء و فضلائے حدیث نے فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو قبول کرنے کے لئے کچھ آداب و شرائط بھی مقرر کی تھیں۔ بعض علماء ایسے بھی تھے جو فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو شخصی قیاس سے افضل سمجھتے ہوئے مطلقاً قابل قبول بتاتے تھے۔ فضائل اعمال وغیرہ میں ضعیف حدیث کا مقبول ہونا محل نزاع ہے صرف جناب اصلاحی صاحب ہی نہیں بلکہ اکثر علماء و فقہاء اپنی تصانیف میں بلا تکلف فضائل اعمال، ترغیب و ترہیب اور مناقب وغیرہ میں ضعیف حدیث کو عندالمحدثین معتبر اور لائق عمل بیان کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ یہ امر جملہ محققین، محدثین، اصولیین اور علماء کے نزدیک محل نزاع رہا ہے۔ کتب مصطلح الحدیث پر نگاہ رکھنے والے کسی شخص پر یہ بات مخفی نہیں ہے۔ محدثین کے اس اختلاف کے متعلق علامہ ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فضائل اعمال وغیرہ میں ضعیف حدیث پر عمل کے متعلق اتفاق کا دعویٰ باطل ہے، اگرچہ جمہور کا مذہب یہی، مگر مشروط ہے‘‘۔ [1] علامہ سخاوی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’حاصل کلام یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کے متعلق تین مذاہب ہیں: مطلقاً اس پر عمل نہ کرنا، (اگر اس باب میں کوئی دوسری چیز وارد نہ ہو تو) مطلقاً اس پر عمل کرنا، اور فضائل میں چند شرائط کے ساتھ اس پر عمل کرنا (اس پر جمہور کا اتفاق ہے)۔‘‘ [2] ذیل میں ہم ان مختلف نظریات کے حامل محدثین اور ان کے دلائل کا مختصر جائزہ پیش کریں گے: علماء جن کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقاً قابل قبول ہے علماء کا ایک گروہ ضعیف حدیث کے مطلقاً قابل قبول اور بلا شرط لائق عمل ہونے کا قائل ہے، کیونکہ ان حضرات کے نزدیک ضعیف حدیث شخصی قیاس و اجتہاد سے مقدم اور بدرجہا اولیٰ ہوتی ہے، چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بعض علماء کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث پر مطلقاً عمل کیا جاتا ہے۔ امام ابوداود اور امام احمد کے متعلق پہلے
Flag Counter