Maktaba Wahhabi

241 - 363
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تشیع حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں اور ان کو دوسرے صحابہ پر مقدم ٹھہرانا ہے۔ پس جو انہیں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر مقدم ٹھہرائے وہ تشیع میں غالی ہے، اس پر رافضی کا اطلاق ہوتا ہے، ورنہ وہ شیعہ ہے۔ اگر تبرا (برا، بھلا کہنے) یا بغض کی صراحت پائی جاتی ہو تو وہ رفض میں غالی ہے اور اگر روز قیامت سے قبل دنیا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی واپسی کا اعتقاد رکھتا ہو تو وہ غلو میں بہت زیادہ شدید ہے‘‘۔ [1] ’’ارجاء‘‘ کے متعلق آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ارجاء کے معنی تاخیر کے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک قسم وہ ہے جو ان دو گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کی تصویب کے حکم میں تاخیر کرتی ہے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد قتال کیا تھا اور دوسری قسم وہ ہے جو ان لوگوں پر دوزخی ہونے کا حکم لگانے میں تاخیر کرتی ہے جو کہ کبائر کے مرتکب اور تارک فرائض ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ایمان محض اقرار و اعتقاد ہے، عمل سے ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا‘‘۔ [2] اسی طرح فرماتے ہیں: ’’قدری وہ ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ شر صرف عبد کا فعل ہے‘‘۔[3]اور ’’جہمی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کرتا ہو جو کتاب اللہ اور سنت رسول سے ثابت ہیں اور یہ کہتا ہو کہ قرآن مخلوق ہے‘‘۔[4]اور ’’ناصبی وہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہو اور ان پر دوسروں کو مقدم ٹھہراتا ہو‘‘۔ [5] مبتدعین کی روایات کا حکم: یہ بات اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ مبتدعین نے اپنے مسلک کی تائید میں بے شمار احادیث گھڑ لی تھیں اور عوام میں انہیں مشہور بھی کر دیا تھا۔ ایسے متعدد افراد جو پہلے انہی گمراہ فرقوں میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتے تھے، جب تائب ہوئے تو انہوں نے اپنے اس مذموم فعل کا برملا اعتراف کیا تھا جیسا کہ ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘[6]اور ’’الموضوعات‘‘ لابن الجوزی [7] وغیرہ میں مذکور ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان فرقوں میں سب کے سب کذاب، وضاع اور ناخدا ترس انسان ہی تھے، چنانچہ محدثین کی ایک کثیر جماعت نے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور جامع تدوین کے پیش نظر نہ ہر صاحب بدعت کی روایت پر علی الاطلاق رد اور عدم قبول کا حکم
Flag Counter