مطابق ضعیف حدیث پر عمل محض شکلی و ظاہری ہے، حقیقی نہیں ہے، اور تیسری شرط تو خود ضعیف حدیث پر ترک عمل کی متقاضی ہے۔ تفصیل کے لئے راقم کی کتاب ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘[1]کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
علماء جن کے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل مطلقاً ناجائز ہے:
کبار محدثین اور علماء کا یہ گروہ ضعیف حدیث پر عمل کو نہ احکام میں جائز تصور کرتا ہے اور نہ فضائل اعمال وغیرہ میں۔ علامہ ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کا دعویٰ ہے کہ ’’یہ مذہب ضعیف ہے۔‘‘ [2] مگر واقعہ یہ ہے کہ یہی موقف درست، محتاط اور انصاف پر مبنی ہے، چنانچہ محدثین و اصولیین کے اس گروہ میں امام یحییٰ بن معین (م 233ھ)، امام ابن حبان البستی (م 254ھ)، امام مسلم (م 261ھ)، امام بخاری (م 256ھ)، امام ابن حزم اندلسی (م 456ھ)، امام خطیب البغدادی (م 463ھ)، امام ابن العربی المالکی (م 543ھ) امام ابو شامہ المقدسی (م 665ھ)، امام ابن تیمیہ الحرانی (م 728ھ)، امام شاطبی الغرناطی (م 790ھ) اور امام شوکانی (م 1250ھ) وغیرہم رحمہم اللہ جیسی عظیم المرتبت شخصیات شامل ہیں۔
تفصیل کے لئے حاشیہ [3] کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
ضعیف احادیث سے احکام میں احتجاج:
جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ کہ – ’’ہمارے اکابر حدیث نے حلال و حرام کے متعلق حدیثیں قبول کرنے میں فی الجملہ احتیاط برتی ہے لیکن ترغیب و ترہیب اور فضائل وغیرہ کی روایات میں انہوں نے عمداً تساہل برتا ہے‘‘۔ میں سے آخر الذکر جزء کا جواب تو مختصراً اوپر ہو چکا، جہاں تک اس دعویٰ کے اولا الذکر جزء کا تعلق ہے تو جان لینا چاہیے کہ بعض علماء نے ضعیف حدیث کو فضائل اعمال کے ساتھ حلال و حرام اور احکام میں بھی قبول کیا ہے، چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
|