Maktaba Wahhabi

149 - 363
علمآء هذا الشأن قط علي توثيق ضعيف ولا علي تضعيف ثقة‘‘ [1] یعنی ’’امام ذہبی رحمہ اللہ جو کہ نقد رجال کے معاملہ میں اہل الاستقرار التام میں سے ہیں، فرماتے ہیں کہ کسی ضعیف راوی کی توثیق یا کسی ثقہ راوی کی تضعیف کے بارے میں کبھی دو محدثین نے اتفاق نہیں کیا ہے‘‘۔ فن جرح و تعدیل کی ضرورت و اہمیت: حدیث چونکہ شریعت کے دو بنیادی مآخذ میں سے ایک اہم ماخذ ہے، جیسا کہ اوپر سابقہ ابواب میں مذکور ہو چکا ہے، لہٰذا احتیاط کا تقاضہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے پیش کیا جائے اسے یونہی بلا تحقیق جزو دین کے طور پر قبول نہ کیا جائے بلکہ ایسی جو چیز بھی حدیث کے نام پر ہم تک پہنچے اس کے متعلق مکمل طور پر چھان بین کر کے پہلے یہ یقین و اطمینان کر لینا ضروری ہے کہ آیا وہ خبر قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں؟ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا] [2] یعنی ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی خوب اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو‘‘۔ پس ایسی خبر کہ جس کی روایت کرنے والا غیر فاسق یعنی متقی، ثقہ، امین، حافظ اور ضابط ہو اسے درست، محفوظ، صحیح، ثابت اور قابل اعتماد نہ سمجھا جائے تو اور کیا سمجھا جائے؟ یہی وجہ ہے کہ علمائے سلف و خلف صرف انہی اخبار کو احادیث نبوی کا درجہ دیتے ہیں جو کہ ثقہ راویوں سے مروی ہوں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک باب یوں معنون کیا ہے: ’’باب وجوب الرواية عن الثقات و ترك الكذابين والتحذير من الكذب علي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ اور اس کے تحت فرماتے ہیں: ’’اعلم وفقك اللّٰه أن الواجب علي كل أحد عرف التمييز بين صحيح الروايات و سقيمها و ثقات الناقلين لها من المتهمين أن لا يروي منها إلا ما عرف صحة مخارجه والستارة في ناقليه و أن يتقي منها ما كان منها عن أهل التهم والمعاندين من أهل البدع‘‘ [3] یعنی ’’جانیئے اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ ہر اس آدمی پر جو علم حدیث کے ساتھ تعلق رکھتا ہو یہ واجب ہے کہ وہ صحیح اور سقیم روایات میں فرق کر سکے اور ثقہ ناقلین کو متہم اور اہل بدع راویوں سے ممیّز کر سکے اور صرف اس
Flag Counter