Maktaba Wahhabi

224 - 363
صاحب موصوف کے موقف کی تردید ہوتی نظر آئے گی، مثلاً اگر کسی شخص کو ضعف بصارت کی شکایت ہو تو طبیب سب سے پہلے اس کی آنکھ کا ہی معائنہ کرے گا نہ کہ اس کی زبان، قلب، جگر، معدہ اور ہاتھ پاؤں وغیرہ کا۔ اسی طرح اگر کسی سائیکل کے پہیہ کی ہوا نکل جائے تو اس کے ٹیوب کو ہی چیک کیا جائے گا نہ کہ اس کے بریک، ہینڈل یا پیڈل یا چین وغیرہ کو۔ پس معلوم ہوا کہ جس راستہ سے کسی خرابی کا راہ پا جانا ممکن ہو بنیادی طور پر اسی پر غوروفکر کرنا مفید ہوتا ہے اور ’’حدیث‘‘ تو ایک ایسا درخت ہے کہ جس کے صرف دو ہی اجزاء ہیں: جڑ (سند) اور تنا (متن)۔ اگر محترم اصلاحی صاحب کو اس درخت کی نایاب ٹہنیاں، پتے، پھل اور پھول کہیں دستیاب ہوئے ہوں تو براہ کرم ہمیں بھی ان کی زیارت سے شرف یاب ہونے کا موقع دیں، ہم ان کے مشکور ہوں گے۔ سند کا پہلا خلا اور اس کا جائزہ: جناب اصلاحی صاحب کے نزدیک سند کے پہلے خلا کا تعلق فن اسماء الرجال سے ہے، چنانچہ فرماتے ہیں ’’سند کی تحقیق میں جو خلا باقی رہ جاتے ہیں وہ معمولی غوروتدبر سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً پہلا خلا اس میں یہ ہے کہ اپنے تعلق اور علاقہ سے بعید، ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمیوں کے عقیدہ و کردار، ان کے علم و عمل اور ان کے تعلقات و معاملات کی ایسی تحقیق کہ ان کے متعلق یہ طے کیا جا سکے کہ علم رسول کے حمل و نقل کے باب میں ان پر اطمینان کیا جا سکتا ہے یا نہیں، کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بے شک محدثین نے اس میدان میں بڑی جاں فشانیاں کی ہیں، لیکن یہ کام ہے بہت مشکل! اس نوعیت کی تحقیق اگر ہم اپنے گاؤں یا قصبہ یا شہر کے لوگوں کے بارے میں کرنا چاہیں تو چنداں آسان نہیں چہ جائے کہ ہزاروں میل دور کے لوگوں کے بارے میں جو مختلف ادوار میں پھیلے ہوئے ہوں۔ اس قسم کی تحقیق کے بارے میں محتاط رائے یہ ہو سکتی ہے کہ فی الجملہ ہمیں ان لوگوں کے کوائف معلوم ہیں اور اب ان کی شخصیات مجہول نہیں رہیں۔ ان کے بارے میں کسی رائے کو حتمی یا قطعی کہنا مشکل اور غالباً اپنی معلومات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے۔ آدمی کے کردار و اخلاق کے معاملہ میں قابل اطمینان رائے اسی صورت میں قائم کی جا سکتی ہے جب معاملات میں اس سے عملاً سابقہ پڑا ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صاحب علم و فراست کی رائے یہی ہے۔ ان کی نسبت مشہور ہے کہ ایک صاحب نے ان کے سامنے کسی دوسرے شخص کی تعریف کی تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارا اس کے ساتھ کبھی پڑوس رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، کہ نہیں۔ تب انہوں نے پوچھا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی تجارتی سفر کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تب تمہیں اس کا حال کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کیسا آدمی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک آدمی کسی کے ساتھ کوئی معاملہ نہ کرے، اس
Flag Counter