علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے غیر مکفر مبتدع کے مطلقاً مقبول ہونے سے متعلق قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’وهذا الذي قاله الحافظ هو الحق الجدير بالاعتبار و يؤيده النظر الصحيح‘‘ [1]
فریق سوم:
محدثین کا تیسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر مفسق بدعت اپنی بدعت کی تبلیغ نہ کرتا ہو تو مقبول ہے ورنہ نہیں، کیونکہ اپنی بدعت کو خوشنما بنانے کا خیال اسے روایات میں تحریف کرنے اور انہیں اپنے مسلک کے مطابق بنانے کی تحریک پیدا کر سکتا ہے۔ اس مسلک کے سرخیل امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ کا شمار اسی گروہ میں ہوتا ہے۔ خطیب بغدادی نے اس قول کو ’’عن کثیرین‘‘ اور ابن الصلاح رحمہ اللہ نے ’’کثیر‘‘ یا ’’اکثر‘‘[2]سے حکایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هذا المذهب هو الأعدل و صارت إليه طائفة من الأئمة‘‘ [3]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ بالجزم فرماتے ہیں: ’’أنه قول الأكثرين‘‘ [4]
حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر مبتدع داعئ بدعت نہ ہو تو اس کی روایت قبول کی جائے اور جو داعئ بدعت ہو اس کی روایت قبول نہ کی جائے۔ یہ مذہب کثیر یا اکثر علماء کا ہے۔‘‘ [5]
حافظ جعفر بن ابان بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دریافت کیا: کیا ہم اہل الاہواء مثلاً مرجئی اور قدری وغیرہ سے احادیث لکھیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
’’نعم إذا لم يكن يدعو إليه و يكثر الكلام فيه فإما إذا كان داعيا فلا‘‘ [6]
عبداللہ بن احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ میں نے والد سے پوچھا کہ آپ نے ابو معاویہ الضریر سے روایت تو کی ہے جب کہ وہ مرجئی تھا لیکن شبابہ بن سوار سے روایت کیوں نہیں کی جبکہ وہ قدری ہے؟ آں رحمہ اللہ نے فرمایا:
|