Maktaba Wahhabi

314 - 363
جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا‘‘۔ جہاں تک اس حدیث سے حجت پکڑنے کا تعلق ہے تو بقول امام سخاوی رحمہ اللہ: ’’اس حدیث سے استدلال محل نظر ہے کیونکہ یہ چیز قطعی طور پر محقق ہے کہ دونوں لفظوں کا معنی متحد ہے کیونکہ محدث عنھا ایک ہی ذات ہے، پس موصوف کو اس کی جس صفت سے بھی پکارا جائے اس کی مراد و منشاء ایک ہی ذات قرار پائے گی۔ آپ کا یہاں منع فرمانا دراصل اذکار کے الفاظ ہونے کے باعث ہے کہ جس میں توقیفیت ہوتی ہے۔ اس کے اپنے اسرار و خصائص ہوتے ہیں کہ جس میں عقل و قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے، لہٰذا ان الفاظ کی محافظت ہی واجب ہے‘‘۔[1] چنانچہ محترم اصلاحی صاحب نے بھی روایت بالمعنی کی کمزوری کی مثال کے طور پر اس حدیث کو بیان کیا ہے، لہٰذا اس پر تفصیلی بحث إن شاء اللہ اس باب کے حصہ دوم میں پیش کی جائے گی۔ تیسری دلیل حدیث: ’’نضر اللّٰه امرا سمع مقالتي فوعاها فاداها كما سمعها‘‘ [2] ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو سرسبز و شاداب رکھے جس نے میری باتیں سنیں پھر انہیں یاد رکھا اور جس طرح سنا تھا اسی طرح دوسروں کو پہنچا دیا‘‘۔ روایت بالمعنی کے مانعین کی اس تیسری دلیل کا جواب علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ یوں دیتے ہیں: ’’كما سمعها یعنی جس طرح سنا ہے اسی طرح ادائیگی محض الفاظ کے نقل کرنے تک مقصود نہیں ہے بلکہ بغیر تغیر کے اس کے معنی کا نقل کرنا بھی اسی دائرہ میں آتا ہے‘‘۔ ’’جس طرح سنا اس کو ادا کرنے‘‘ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظ سنے اصلاً ان کے معانی کی ادائیگی ہے۔ اس کو اس مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر شاہد یا مترجم بلا کم و بیش معنی ادا کر دے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے جیسا سنا ویسا بیان کر دیا خواہ اس کے بیان یا ادائیگی کے الفاظ دوسرے ہی ہوں۔ اور اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ بمطابق سماعت ادائیگی کے لئے الفاظ کا نقل کرنا ضروری ہے تو معنوی اعتبار سے ادائیگی مطلب کے عدم جواز کی اس حدیث میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ البتہ ناقل کے لئے انہی الفاظ کا ادا کرنا افضل ہے اور اس کی افضیلت کے متعلق کوئی نزاع نہیں ہے الخ‘‘۔ [3] اس دلیل کا ایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ اس حدیث کو صرف ایک ہی موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
Flag Counter