Maktaba Wahhabi

179 - 363
ثقہ ہوتا ہے لیکن وہی راوی جب کسی دوسرے شیخ سے روایت کرتا ہے تو ضعیف ہوتا ہے، مثلاً جریر بن حازم بصری ثقہ ہیں، لیکن جب قتادہ سے روایت کرتے ہیں تو ضعیف ہیں، اسی طرح جعفر بن زبرقان اور صحیحین کے راوی ہشیم بن بشیر ثقہ ہیں لیکن زہری سے ان کی روایتیں ضعیف ہوتی ہیں۔ [1] ان مخصوص حالات کی تیسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شیخ کا کوئی مخصوص شاگرد اس سے روایت کرے تو اس کی وہ روایت درست ہوتی ہے، لیکن اسی شیخ سے اس کا کوئی دوسرا شاگرد روایت کرے تو وہ ضعیف ہوتی ہے، مثلاً عبداللہ بن لھیعہ (جو سنن اربعہ کا مشہور راوی ہے) سے اگر عبادلہ أربعہ (یعنی عبداللہ بن مبارک، عبداللہ بن یزید المقری، عبداللہ بن وھب اور عبداللہ بن مسلمہ القعنبی) روایت کریں تو ان کی روایت صحیح ہوتی ہے۔ [2] جرح مفسر و مبہم کی بحث: حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وہ جرح مقبول نہیں ہے جو مفسر مبین السبب نہ ہو کیونکہ مختلف لوگوں کے نزدیک اسباب جرح مختلف ہیں، لہٰذا ان میں سے ہر کوئی اپنے اعتقاد کے مطابق جس چیز کو باعث جرح سمجھتا ہے اس کی موجودگی کی صورت میں جرح کر دیتا ہے، حالانکہ وہ چیز فی نفس الامر جرح نہیں ہوتی، لہٰذا سبب جرح بیان کرنے سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ وہ امر قادح بھی ہے یا نہیں؟‘‘ [3] -- مثال کے طور پر حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ سے جب سوال کیا گیا کہ آپ زاذان سے روایت کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’وہ کثیر الکلام تھا‘‘۔[4] اسی طرح جریر بن عبدالحمید رحمہ اللہ نے سماک بن حرب کو کھڑے ہوئے پیشاب کرتے دیکھا تو اس کو ترک کر دیا تھا۔ [5] اسی طرح شعبہ رحمہ اللہ، منھال بن عمرو کے پاس گئے تو ان کے گھر سے ایک روایت کے مطابق طنبورہ اور دوسری روایت کے مطابق طرب یا الحان کے ساتھ قرأت کی آواز سنی تو ان کو ترک کر دیا۔ [6] اسی طرح شعبہ رحمہ اللہ
Flag Counter