Maktaba Wahhabi

324 - 363
ہے‘‘،[1]آں رحمہ اللہ بعض اور مقامات پر لکھتے ہیں: ’’كان من رأي البخاري جواز الرواية بالمعني في صحيحه‘‘ [2] ’’صحیح بخاری‘‘ کا مطالعہ بتایا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ گاہے بگاہے شیوخ کے الفاظ کی تعیین بھی فرما دیتے ہیں، مثلاً سورۃ البقرہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’حدثنا جرير و أبو أسامة واللفظ لجرير‘‘ [3] اسی طرح کتاب الصید والذبائح میں ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’اخبرنا وكيع و يزيد بن هارون واللفظ ليزيد‘‘ [4]امام رحمہ اللہ کی اس نوع کی تصریحات سے واضح طور پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ بعض شیوخ کے الفاظ میں نہیں بلکہ معنی میں اتحاد ہوتا ہے۔ روایت بالمعنی مشاہیر علماء کی نظر میں: علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک مستقل باب یوں قائم کیا ہے: ’’باب ذكر الحجة في إجازة رواية الحديث علي المعني‘‘ [5] حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’محدثین، فقہاء اور علمائے اصول کی اکثریت روایت بالمعنی کی قائل ہے بشرطیکہ راوی عربی زبان سے پوری طرح واقف ہو اور معانی کو اصل الفاظ کے علاوہ دوسرے ہم معنی الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کا خوب ملکہ رکھتا ہو‘‘۔[6] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و أما الرواية بالمعني فالخلاف فيه شهير والأكثر علي الجواز أيضا ومن أقوي حججهم الإجماع علي جواز شرح الشريعة للعجم بلسانهم للعارف به فإذا جاز الإبدال بلغة أخري فجوازه باللغة العربية أولي وقيل إنما يجوز في المفردات دون المركبات وقيل إنما يجوز لمن يستحضر اللفظ ليتمكن من التصرف فيه وقيل إنما يجوز لمن كان يحفظ الحديث فنسي لفظه و بقي معناه مرتسما في ذهنه فله أن يرويه بالمعني لمصلحة تحصيل الحكم منه بخلاف من كان مستحضرا للفظه و جميع ما تقدم يتعلق بالجواز وعدمه ولا شك أن الأولي إيراد الحديث بألفاظه دون التصرف فيه‘‘ [7]
Flag Counter