روایت بالمعنی کے متعلق کچھ تشکیک لاحق تھی۔ اس سے امام یحییٰ القطان رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ليس في يد الناس أشرف ولا أجل من كتاب اللّٰه تعاليٰ وقد رخص فيه علي سبعة أحرف‘‘ [1]
یعنی ’’لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب سے زیادہ شرف والی اور جلیل القدر کوئی کتاب نہیں ہے مگر جب سبعہ احرف پر (اس کی قرأت) کی رخصت ہے (تو حدیث کے الفاظ میں تشدد درست نہیں ہے)‘‘۔
امام سخاوی رحمہ اللہ نے یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کے اس قول کو قدرے اختلاف کے ساتھ یوں نقل کیا ہے:
’’القرآن أعظم من الحديث و رخص أن نقرأه علي سبعة أحرف‘‘ [2]
امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق ابن بکیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
’’ربما سمعت مالكا يحدثنا بالحديث فيكون لفظه مختلفا بالغداة و بالعشي‘‘ [3]
حافظ عراقی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق مروی ہے کہ کسی شخص نے آں رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا آپ نہیں دیکھتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں واو اور الف کا اضافہ ہوتا ہے لیکن معنی ایک ہی ہوتے ہیں، تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’أرجو أن يكون خفيفا‘‘ [4]
امام شافعی رحمہ اللہ نے روایت بالمعنی پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے: ’’أنزل القرآن علي سبعة أحرف فاقرؤا ما تيسر منه‘‘ [5]
یعنی ’’قرآن سبعہ أحرف پر نازل ہوا ہے پس اس میں سے جو تمہیں میسر ہو اس کی قرأت کرو – پھر فرماتے ہیں:
’’جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب سبعہ أحرف پر نازل فرمائی تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اس کتاب کی قرأت ان میں سے ہر طرح جائز ہے خواہ آپس میں ان کے الفاظ مختلف ہی ہوں، مگر یہ اختلاف اس قدر نہ ہو کہ ان کے معانی آپس میں محال ہو جائیں۔ کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب سے بڑھ کر بھی کوئی کتاب ہو سکتی ہے کہ جس میں ایسے لفظی اختلاف، کہ جس کے معنی باہم دگر محال نہ ہوں، پھر بھی وہ جائز نہ ہو الخ‘‘۔ [6]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام بخاری اور انس روایت بالمعنی کو جائز قرار دیتے تھے جیسا کہ خطیب بغدادی نے صریحاً تخریج فرمائی
|