سند کی عظمت اور اس کے بعض کمزور پہلو اصلاحی صاحب کی نظر میں
]’’سند کی عظمت اور اس کے بعض کمزور پہلو‘‘کے عنوان سے یہ باب جناب اصلاحی صاحب کا ایک مستقل مضمون ہے جو تقریباً چھ سال قبل رسالہ ’’تدبر‘‘[1]لاہور میں شائع ہوا تھا، اور اب شامل کتاب ہے۔ ذیل میں اس باب پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں، جابجا جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی کتب سے بھی مختلف اقتباسات پیش کئے جائیں گے۔ لیکن چونکہ یہاں جناب مودودی صاحب پر تبصرہ کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے، لہٰذا ہم صرف آں محترم کی عبارتوں کو نقل کرنے پر ہی اکتفاء کریں گے۔ ان کو یہاں نقل کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ ہر دو صاحبان کے مابین فکری ہم آہنگی واضح ہو سکے۔‘‘[
جناب اصلاحی صاحب سند کی تعریف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہو کر چند راویوں کے واسطے سے بتدریج کسی شیخ پر منتہی ہوتی ہے، اس سلسلہ روایت کو اس حدیث کی سند کہتے ہیں۔ کسی شیخ سے یہاں مراد شیوخ حدیث ہیں جو سلسلہ سند میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، اور جن کے ہاتھوں امت مسلمہ میں احادیث رسول کے مجموعوں کی جمع و تدوین کا عظیم کارنامہ صدر اول میں انجام پا چکا ہے، جیسے: امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم (رحمہم اللہ) وغیرہ۔ کتب حدیث کی تدوین کے بعد روایت حدیث کی سند کے لئے ان اکابر کو شیخ ماننا حدیث کے طالب علموں کے لئے ناگزیر ہے۔‘‘ [2]
لیکن راقم کے نزدیک جناب اصلاحی صاحب کی بیان کردہ سند کی یہ تعریف نہایت محدود اور نامکمل ہے۔ سند کی لغوی اور اصطلاحی تعریف پر اس باب کے حصہ اول میں تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے، لہٰذا یہاں اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ قارئین کرام باب کے ابتدائی صفحات میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اگر جناب اصلاحی صاحب کی بیان کردہ تعریف کو جامع، مکمل اور درست مانا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سند کی دوسری اقسام (مثلاً مرسل، مقطوع اور موقوف احادیث کے طرق) کو کس خانہ میں رکھا جائے گا؟
|