بمرة، اور تالیف وغیرہ الفاظ جرح و تعدیل لکھے ہیں، ان سب کی بنیاد حس، تجربات، مسموعات، مشاہدات اور ان کی روایات کے باریک بین تجزیہ پر ہے، نہ کہ قیاس و اجتہاد یا ظن و تخمین پر۔ اس موضوع پر کچھ بحث راقم کی کتاب ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘[1]میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
ائمہ جرح و تعدیل کے مابین اختلاف رائے کی وجوہ:
ائمہ جرح و تعدیل کے درمیان بعض اوقات جو اختلاف رائے نظر آتا ہے وہ بھی شخصی رائے اور اجتہاد کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی راوی کے حالات میں تبدیلی واقع ہو جانے کے باعث، کبھی راوی کے احوال کی معرفت کے ذرائع مختلف ہونے کے سبب اور کبھی جارحین و معدلین کی شرائط و معیار جدا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
1- اس اختلاف کی پہلی وجہ کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی ایک امام نے جب کسی راوی کے حالات کا پتہ لگایا تو اس وقت اس میں کوئی امر قابل جرح نہ تھا، لہٰذا اس نے تعدیل بیان کی۔ بعد میں جب کسی دوسرے امام نے اسی راوی کے متعلق معلومات جمع کیں تو وہ راوی اپنی سابقہ حالت بدل چکا تھا، چنانچہ اس دوسرے امام نے اس پر جرح کر ڈالی۔ ایسے رواۃ میں سے ایک مثال عبداللہ بن لھیعہ کی ہے جو سنن اربعہ کے راویوں میں سے ہیں۔ ابتدائی ایام میں ثقہ تھے، لیکن جب ان کے کتب خانہ میں آگ لگ گئی اور تمام کتب نظر آتش ہو گئیں تو یہ مختلط ہو گئے۔ اسی طرح جابر الجعفی ابتدائی ایام میں ثقہ تھے، لیکن بعد میں خرابی عقیدہ کی وجہ سے رجعت پر ایمان لے آئے اور جھوٹ گھڑنا شروع کر دیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے کوئی راوی قوی الحافظہ اور ضابط تھا لیکن بیماری یا کبیر سنی یا کسی حادثہ کے سبب بعد میں اس کا حافظہ کمزور ہو گیا اور اس کی حالت میں تغیر آ گیا، جیسے سعید بن ایاس الجریری جو فی نفسہ ثقہ تھے لیکن اختلاف کی بنا پر ضعیف ہو گئے۔
2- اختلاف کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کسی امام کو کسی راوی کا مفصل حال معلوم نہ ہو سکا۔ جہاں تک معلوم ہوا اس میں کوئی امر قادح نہ تھا، لہٰذا اس نے اس راوی کی تعدیل درج کی مگر کسی دوسرے امام نے جب اس کے متعلق بعض دوسرے ذرائع کو استعمال کیا اور مزید معلومات جمع کیں تو اس کے حالات کی تحقیق کے دوران اس راوی میں کچھ قابل جرح باتیں پائیں، پس آخر الذکر امام نے اس پر جرح درج کر دی۔
3- یہ ایک بدیہی امر ہے کہ سارے انسان یکساں نہیں ہوتے، حتی کہ انبیاء و رسل میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: [تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ] [2] چونکہ انسانی ذہن و دماغ مساوی نہیں ہوتے اس لئے لوگوں کی صلاحیتیں اور سوچنے سمجھنے کے انداز بھی مختلف ہوتے
|