آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’البدعة هي ما أحدث علي غير مثال متقدم‘‘ [1]
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه‘‘ [2]
علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الحدث في الدين بعد الإكمال أو ما استحدث بعد النبي صلي اللّٰه عليه وسلم من الأهواء والأعمال‘‘ [3]
علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ، شاہ عبدالحق محدث دہلوی سے نقلاً بیان کرتے ہیں:
’’وهي اعتقاد أمر محدث علي خلاف ما عرف في الدين وما جاء من رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم و أصحابه بنوع شبهة و تأويل لا بطريق جحود و إنكار فإن ذلك كفر‘‘ [4]
یعنی ’’بدعت سے مراد یہ ہے کہ دین کی معروف باتوں کے خلاف اور اس کے خلاف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں کسی امر محدث (نو ایجاد کا کام) کا اعتقاد شبہ اور تاویل کی بناء پر کرنا بطریق جحود و انکار نہیں اس لئے کہ ایسا انکار تو کفر ہے‘‘۔
اور جناب عبدالرحمان بن عبیداللہ رحمانی فرماتے ہیں:
’’بدعت لغت میں ابتداع سے ماخوذ ہے جس کے معنی اس اختراع کے ہیں جس کی پہلے سے مثال نہ ہو اور شریعت میں بدعت، امور دین میں نو ایجاد کو کہتے ہیں۔ یعنی ایسی چیز جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے اصحاب کا حکم نہ ہو یا ایسی چیز جس کا کتاب اللہ یا سنت رسول میں کوئی ثبوت نہ ہو اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کا اس پر حکم یا عمل یا دینی اعتقاد ہی ہو‘‘۔ [5]
بدعت و مبتدعین کا تعارف نیز ان کی قسمیں:
اہل بدعت میں وہ تمام فرقے شامل ہیں جنہوں نے اجماع سلف سے خروج کیا ہے مثلاً زندیق، سبائی، خارجی، ناصبی، قدری، جہمی، شیعہ، رافضی، حشوی اور مرجئی وغیرہ، لیکن اکثر محدثین نے ان تمام فرقوں کو ان کے بدعتی عقائد کی سنگینی کے اعتبار سے دو طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔
|