1- بدعت مکفرہ یا کافر بنا دینے والی بدعت
2- بدعت مفسقہ یا فاسق بنا دینے والی بدعت
مکفر بدعت وہ شخص ہے جو دین کے ضروری اور فطری امور کا جو تواتر سے ثابت ہوں انکار کرتا ہو یا ان کے برعکس اعتقاد رکھتا ہو، مثال کے طور پر غلاۃ روافض کہ جن میں سے بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ میں حلول الٰہیت کا دعویٰ رکھتے ہیں یا روز قیامت سے قبل دنیا میں ان کی واپسی پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ ان چیزوں کے متعلق صحیح احادیث میں کچھ بھی وارد نہیں ہے۔
اور مفسق بدعت وہ شخص ہے جس کی بدعت اس کے فسق پر مستلزم ہو۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مفسق بدعت مثلاً خوارج اور وہ روافض جو غلو نہیں کرتے – اگرچہ یہ اصول سنت کے مخالفین گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور بظاہر اختلاف بھی رکھتے ہیں لیکن تاویل ظاہری میں مستند ہیں‘‘۔[1]
مگر حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے مبتدعین کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے: بدعت غلیظہ، بدعت متوسطہ اور بدعت خفیفہ، چنانچہ اکثر محدثین کی تقسیم پر ان کے اقوال و دلائل نقل کرنے کے بعد ایک مزید قسم کا اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فيخرج من هذا أن البدع الغليظة كالتجهم يرد بها الرواية مطلقا والمتوسطة كالقدر إنما يرد رواية الداعي إليها والخفيفة كالإرجاء هل تقبل معها الرواية مطلقا أو يرد عن الداعية علي روايتين‘‘ [2]
یعنی ’’خلاصہ یہ ہے کہ بدعت غلیظہ جیسے جہمیت اختیار کرنے والے کی روایت مطلقاً مردود ہے اور بدعت متوسطہ جیسے تقدیر کا انکار کرنے والے کی روایت اگر وہ اس کی طرف داعی نہ ہو تو مقبول ہے، اور بدعت خفیفہ جیسے ارجاء کرنے والے کی روایت مطلق مقبول ہے یا نہیں تو اس بارے میں اختلاف ہے‘‘۔
چونکہ جناب اصلاحی صاحب نے اہل بدعت (خصوصاً ’’شیعہ‘‘ اور ’’روافض‘‘) سے روایات قبول کرنے کے بارے میں محدثین پر طعن کیا ہے لہٰذا ہم قارئین کرام کو ان اہل بدعت میں سے چند کے بارے میں مختصراً یہ بتانا چاہیں گے کہ قدماء اور محدثین کے نزدیک ’’شیعہ‘‘، روافض، مرجئی، قدری، جہمی اور ناصبی‘‘ وغیرہ کا اطلاق کن عقائد کے حاملین پر ہوتا تھا، تاکہ ان کی روایات کی نوعیت واضح ہو سکے۔
|