Maktaba Wahhabi

133 - 363
اور ’’دائرۃ المعارف الاسلامیہ‘‘ میں مذکور ہے: ’’البرهان علي صحة الرواية‘‘ [1] پس معلوم ہوا کہ اسناد، حدیث نبوی کی رکن اور دینی امور میں سے ایک انتہائی ضروری امر ہے۔ حدیث کے لئے اسناد کی اہمیت کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ حدیث کی عمارت اسناد کی بنیادوں پر ہی قائم ہے۔ اسناد کے بغیر حدیث کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ جس حدیث کی کوئی سند نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسی کہ بغیر بنیاد کے کوئی عمارت یا بغیر روح کے جسم۔ اگر نقد حدیث اور اس کی تحقیق و تنقیح کے سلسلہ میں محدثین کے وضع کردہ اصول و قواعد پر نظر ڈالی جائے تو اسناد کی تہذیب کے کچھ آثار فوراً ہی نظر آ جاتے ہیں۔ اسی کی مدد سے صحیح و مکذوب، موصول و منقطع، مرفوع و موقوف و مقطوع اور مرسل وغیرہ کے درمیان تمیز ممکن ہوتی ہے۔ دین میں اسناد کے مطلوب ہونے کے باعث ہی شرع متین کے جملہ ائمہ نے اس کو ہر دور میں مرغوب جانا ہے، اسے امت محمدیہ کے خصائص اور اللہ عزوجل کے انتہائی کرم و فضل سے عبارت سمجھا ہے اور اس کو دین مبین کی سنن بالغہ میں سے ایک اہم سنت کا درجہ دیا ہے۔ سند کی فضیلت پر علامہ لکھنوی کا ایک موضوع حدیث سے استدلال: افسوس کہ جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی حنفی صاحب نے اسناد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’الأجوبة الفاضلة‘‘ میں ایک موضوع حدیث سے یوں استدلال فرمایا ہے: ’’وفي شرح المواهب للزرقاني: أخرج الحاكم و أبو نعيم و ابن عساكر عن علي مرفوعا إذا كتبتم الحديث فاكتبوه بإسناده فإن يك حقا كنتم شركاء في الأجر وإن يك باطلا كان وزره عليه و فيه شرف أصحاب الحديث ورد علي من كره كتابته من السلف والنهي عنه في خبر آخر منسوخ أو مؤول‘‘ [2] یعنی ’’جب تم حدیث لکھو تو اس کی سند کے ساتھ لکھو پس اگر وہ حق ہوئی تو تم اجر میں شریک ہو گے اور اگر غلط و باطل ہوئی تو اس کا گناہ اسی ناقل پر ہو گا‘‘۔ اس حدیث کو عثمان بن محمد المحمی نے اپنی کتاب ’’الحدیث‘‘[3]میں بطریق عباد بن يعقوب قال ثنا سعيد بن عمرو العنبري عن مسعدة بن صدقة عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي بن الحسين عن ابيه عن جده مرفوعاً روایت کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی تخریج ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، امام حاکم نے ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں اور ابو نعیم اصبہانی وغیرہ نے بھی کی ہے جیسا کہ علامہ زرقانی وغیرہ
Flag Counter