جرح و تعدیل کے چند رہنما اصول:
جرح و تعدیل کا علم جتنا حساس، پرخطر اور دشوار ہے اتنا شاید ہی کوئی دوسرا علم ہو کیونکہ اس میں فاحص اور مفحوص دونوں بشر ہوتے ہیں اور بشر میں محابات، مدارات اور دو مساوی چیزوں میں اسراف و تجاوز کی طرح خطاء، نسیان، غصہ، تعسف اور احکام میں جور کے جذبات بھی موجود ہوتے ہیں، چنانچہ اس علم کو ان تمام عوامل کے اثرات سے پاک رکھنے کے لئے علماء نے کچھ قواعد و ضوابط وضع کئے ہیں تاکہ ان کے سبب صدق و نزاہت نیز اس علم کی افادیت ہر ممکن حد تک حاصل ہو سکے۔ یہ اصول حسب ذیل ہیں:
1- ہر جارح و معدل پر لازم ہے کہ کسی راوی کے متعلق اپنا حتمی حکم جاری کرنے سے قبل تمام اقوال اور شہادات کی خوب اچھی طرح جانچ پڑتال کر لے تاکہ اس کا حکم تمام اجحاف سے مبری ہو۔ بعض اوقات کسی راوی کے متعلق وارد جرح و تعدیل میں سے کسی ایک امام کے قول پر اعتماد کرنا تحقیق کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے، مثلاً جابر الجعفی کہ جس کے متعلق اکابر ائمہ سے جرح اور تعدیل کے متضاد اقوال منقول ہیں، چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ما رأیت أحدا أکذب من جابر الجعفی‘‘ (یعنی میں نے جابر جعفی سے زیادہ کوئی جھوٹا نہیں دیکھا) جبکہ امام وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لولا جابر الجعفی لکان أھل الکوفۃ بغیر الحدیث‘‘[1](یعنی اگر جابر جعفی موجود نہ ہوتے تو اہل کوفہ علم حدیث سے محروم رہ جاتے) اور شعبہ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’إذا قال جابر حدثنا فھو أوثق الناس‘‘[2]اسی طرح صاحب مغازی محمد بن اسحاق مدنی کو امام مالک رحمہ اللہ نے ’’دجال من الدجاجلۃ‘‘[3]کہا ہے جبکہ شعبہ رحمہ اللہ نے انہیں ’’أمیر المؤمنین فی الحدیث‘‘[4]بتایا ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ، ابان بن یزید کے ترجمہ میں راوی کے متعلق اقوال توثیق سے امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی چشم پوشی کرنے اور صرف اس کے عیوب کو ہی بیان کرنے پر کس قدر وجہ تنقید فرماتے ہیں: ’’یسرد الجرح و یسکت عن التوثیق‘‘[5]اسماء الرجال کی کتب دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے جلیل القدر منصف مزاج علماء ایسے بھی گزرے ہیں جو اگر کسی راوی پر جرح کرتے ہیں تو اس کے فضائل و محاسن بیان کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے، مثال کے طور پر ابو معشر السندی کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں:
|