’’مرقاۃ السعود‘‘، ’’حاشیہ سنن ابی داؤد‘‘،[1]’’فتح القدیر‘‘،[2]لابن ھمام، ’’التعقبات‘‘[3]للسیوطی اور ’’إعلام السنن‘‘ للتھانوی اور ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘[4]وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
لیکن حق یہ ہے کہ اول الذکر قول کے سوا باقی یہ تمام اقوال مرجوح ہیں۔ یہ تفصیل کا موقع نہیں ہے لیکن بعض متاخرین علماء مثلاً علامہ زرکشی رحمہ اللہ وغیرہ کے اس قول میں وزن محسوس ہوتا ہے کہ:
’’جرح و تعدیل میں تعارض اگر ایک ہی عالم کی جہت سے ہو تو ایسی صورت میں اگر یہ معلوم کیا جا سکے کہ کون سا قول متأخر ہے، تو جو قول متاخر ہو گا اس کو ترجیح دی جائے گی، اور اگر یہ چیز معلوم نہ ہو سکتی ہو تو توقف کرنا واجب ہے‘‘۔[5]
اسباب جرح:
اسباب جرح دس ہیں جن میں سے پانچ کا تعلق راوی کی عدالت سے ہے اور پانچ کا تعلق اس کے ضبط سے ہے۔ متعلق بہ عدالت پانچ اسباب یہ ہیں: کذب، تہمت، کذب، فسق، جہالت اور بدعت۔ متعلق بہ ضبط اسباب جرح یہ ہیں: فحش غلط، کثرت غفلت، وہم، مخالفت ثقات اور سوء حفظ۔[6]
صحیح البخاری کے بعض رجال پر جن لوگوں نے طعن کیا ہے تو ان کے نزدیک اسباب جرح مختلف ہیں اور ان کا مدار پانچ اشیاء پر ہے مثلاً: بدعت، مخالفت، غلط، جہالت اور سند میں انقطاع کا دعویٰ بایں طور کہ فلاں راوی تدلیس یا ترسیل کرتا ہے۔ [7]لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے رجال الصحیح پر کئے گئے ہر ایک طعن کا خوب تسلی بخش جواب دیا ہے[8]، فجزاہ اللہ أحسن الجزاء۔
|