وقت پہنچتا ہے اور اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ پہلے کیا بات ہو رہی تھی۔ اس طرح کے متعدد نقائص ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نیک نیتی اور صداقت کے باوجود قائل کی بات اپنی صحیح صورت میں نقل نہیں ہوتی۔ اور ایسا ہی معاملہ حالات اور افعال کی رودادیں بیان کرنے میں بھی پیش آیا کرتا ہے۔ کبھی ان نقائص کو دوسری روایتیں رفع کر دیتی ہیں اور سب کو ملا کر دیکھنے سے پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے اور کبھی ایک ہی روایت موجود ہوتی ہے (جسے اصطلاح علم حدیث میں غریب کہتے ہیں) اس لئے وہ نقص علم روایت کی مدد سے رفع نہیں کیا جا سکتا اور درایت سے کام لے کر یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے کہ اصل بات کیا ہو سکتی تھی یا یہ کہ یہ بات اپنی موجودہ صورت میں قابل قبول ہے یا نہیں یا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اور انداز گفتگو سے یہ چیز مناسبت رکھتی ہے یا نہیں۔ اس حد تک حدیث میں تحقیق کرنے کی صلاحیت جن لوگوں میں نہ ہو انہیں اول تو حدیث کی کتابیں پڑھنی ہی نہیں چاہئیں یا پڑھیں تو کم از کم ان کو فیصلے صادر نہ کرنے چاہئیں‘‘۔ [1]
’’اور نہ فن حدیث کے نقطہ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کرنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے ایسے اسباب ہو سکتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اگر متن میں کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے ‘‘۔ [2]
قارئین کرام! آپ حضرات نے بچشم خود ملاحظہ فرما لیا ہو گا کہ جناب مودودی صاحب نے سطور بالا میں حقائق کو کس طرح توڑ مروڑ کر اور منفی انداز میں پیش کیا ہے، لیکن چونکہ یہاں جناب مودودی صاحب کی ناقص معلومات کو اجاگر کرنا یا ان کی عبارتوں پر تبصرہ کرنا ہمارا مقصود نہیں ہے لہٰذا جناب اصلاحی و مودودی صاحبان کے درمیان فکری ہم آہنگی کو واضح کرتے ہوئے ہم آگے چلتے ہیں۔
اصلاحی صاحب کا اپنے موقف پر ایک دنیاوی مثال سے استدلال:
آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب نے اپنے ناقص موقف کی تائید میں کسی درخت کی تحقیق کے لئے اس کی جڑ کے ساتھ اس کے تنے، ٹہنیوں، پتوں، پھل اور پھول وغیرہ کا بھی مکمل جائزہ لینے کی عقلی مثالیں پیش کی ہے لیکن ہر معاملہ میں صرف عقلی مثالوں یا دنیاوی مشاہدات سے استدلال کرنا درست نہیں ہوا کرتا بلکہ کبھی کبھی تو نہایت مضر ہوتا ہے، بالخصوص دینی معاملات میں۔ ایسی عقلی مثالیں ہم بھی پیش کر سکتے ہیں جن کی رو سے اصلاحی
|