’’بنیاد پرست‘‘ (Fundamentalist)، ’’کٹر مذہبی‘‘ (Fanatic)، ’’قدامت پسند‘‘ (Orthodox) یا ’’دین پسند‘‘ جیسا ہی کوئی مغربی نعرہ ہے کو جاننا چاہیے کہ کسی سچے مسلمان کو اس طرح کے کھوکھلے نعروں سے پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بنیاد پرست، کٹر مذہبی، قدامت پسند اور دین پسند ہونا فی نفسہ باعث طعن و شرمندگی نہیں بلکہ باعث فخر و سعادت ہے۔ چونکہ حدیث شریعت کے دو بنیادی مآخذ میں سے ایک اہم ماخذ ہے لہٰذا اس کی تعلیمات کا احترام کرنا، اس کو دین سمجھنا، اس پر بالکلیہ عمل کرنے میں اپنی فلاح مضمر سمجھنا اور اگر کبھی کسی طبقہ کی طرف سے اس پر حملہ ہو تو اسے دین پر حملہ تصور کرتے ہوئے اس کی حمایت و نصرت کے لئے اپنے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ سینہ سپر ہو جانا ہی ایک مسلمان کی شان ہے، خواہ کوئی اسے شدت پسند، کٹر مذہبی، متعصب، جنونی، بنیاد پرست یا غالی حامی جیسے القاب سے ہی کیوں نہ یاد کرے۔ ایسے مواقع پر اس کی صرف واجبی یا سرسری سی حمایت کرنا ایک سچے اور دیندار مسلمان کی غیرت و حمیت سے بعید ہے۔ یہاں غالباً جناب اصلاحی صاحب نے محدثین کرام کی شان میں ’’حدیث کے بعض غالی حامیوں‘‘ کے الفاظ بطور ہتک استعمال فرمائے ہیں، واللہ أعلم۔
جہاں تک جناب اصلاحی صاحب کے اگلے قول ’’کسی حدیث کی صحت کے ثبوت کے لئے مجرد اس کی سند کا علم اصول کے معیار پر پورا ہونا کافی ہے یعنی ان کے نزدیک صحت حدیث کے لئے صرف سند کی صحت اور اس کا قابل اعتماد ہونا فیصلہ کن امر ہے۔ ہمارے نزدیک ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے، یہ غلو پر مبنی اور محض حسن ظن ہے‘‘ – کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہم قارئین کرام کی توجہ اسلاف کے منہج تحقیق اور ان کی سنت کی طرف مبذول کروانا چاہیں گے، جس کا تذکرہ اس باب کے حصہ أول میں گزر چکا ہے، اور جو یہ بتاتا ہے کہ پہلی صدی ہجری سے ہی اسلاف نیز محدثین اور نقاد حدیث (کہ جنہیں اصلاحی صاحب نے ’’حدیث کے غالی حامیوں‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے) کے نزدیک صحت حدیث کا معیار فقط علل اسناد کی چھان بین (یعنی اتصال، عدالت، ضبط اور حافظہ رواۃ وغیرہ) نہ تھا بلکہ وہ لوگ ان چیزوں کی تحقیق کے ساتھ متن حدیث پر بھی غوروفکر کیا کرتے تھے، اور ہمیں اپنے اسلاف کے متعلق قطعاً یہ بدگمانی لاحق نہیں ہے کہ انہوں نے دین کے اس اہم مأخذ کو قبول کرنے یا اسے ہم تک منتقل کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کو روا رکھا ہو گا۔ جناب اصلاحی صاحب کو اختیار ہے کہ اسلاف کا یہ منہج اگر ان کی جدید محدثانہ فکر سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسے ’’غلو پر مبنی اور محض حسن ظن‘‘ ہی قرار دیں یا کچھ اور۔
صحت حدیث کے لئے محدثین سند کے ساتھ اس کے متن پر بھی غور کرتے تھے:
جناب اصلاحی صاحب نے آگے چل کر سند کے محاسن و عظمت کا سرسری تذکرہ کرتے ہوئے اس میں موجود کچھ ’’فطری خلاء‘‘ کی جانب اشارہ کیا ہے، پھر سند کے ان ’’فطری خلاء‘‘ کی تلافی کے لئے یہ نسخہ تجویز فرمایا ہے:
’’—جن کی تلافی کے لئے ضروری ہے کہ حدیث کی صحت کو جانچنے کے لئے سند کے سوا بعض دوسرے
|