Maktaba Wahhabi

123 - 363
باب چہارم سند کی لازوال عظمت اور فن جرح و تعدیل کا تعارف سند کی تعریف: بدر بن جماعہ رحمہ اللہ اور طیبی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’هو الإخبار عن طريق المتن – (قيل) فلان سند أي معتمد فسمي الإخبار عن طريق المتن سندا لاعتماد الحفاظ في صحة الحديث و ضعفه عليه و أما الإسناد فهو رفع الحديث إلي قائله قال الطيبي وهما متقاربان في معني اعتماد الحفاظ في صحة الحديث و ضعفه عليهما وقال ابن جماعة: المحدثون يستعملون السند والإسناد لشيء واحد‘‘ [1] یعنی ’’متن حدیث تک پہنچنے کے ذریعہ یا راستہ کی خبر کو سند کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے: کہ فلاں سند ہے، یعنی معتمد ہے۔ پس طریق المتن کی خبر دینے کو سند اس لئے کہا جاتا ہے کہ حفاظ اس پر حدیث کی صحت یا ضعف کے فیصلہ کے لئے اعتماد کرتے ہیں جبکہ حدیث کو اس کے قائل تک رفع کرنا اسناد کہلاتا ہے۔ طیبی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ حدیث کی صحت اور ضعف کے فیصلہ کے لئے محدثین کے ان پر اعتماد کرنے کے اعتبار سے یہ دونوں چیزیں ہم معنی ہیں۔ ابن جماعہ کا قول ہے کہ محدثین ’سند‘ اور ’اسناد‘ ایک ہی چیز کے لئے استعمال کرتے ہیں‘‘۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والمراد بالطرق الأسانيد، والإسناد حكاية طريق المتن، و المتن هو غاية ما ينتهي إليه الإسناد من الكلام‘‘ [2] یعنی ’’طرق سے مراد اسانید ہیں اور اسناد متن حدیث کے طریق یا راستہ کی حکایت کو کہتے ہیں اور متن، حدیث کے ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جہاں جا کر اسناد ختم ہو جاتی ہے‘‘۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’سند طریق حدیث کا نام ہے، یعنی وہ لوگ جنہوں نے اسے روایت کیا۔ اسناد بھی اسی معنی میں ہے،
Flag Counter