Maktaba Wahhabi

122 - 363
پیدا ہوئی کہ جس سے ان کے تدبر حدیث میں امتیاز نیز ان کے قدر علم و تفقہ کا سراغ مل سکتا ہو تو ایسی حالت میں بزعم خود ان کا آپس میں ایک دوسرے سے موازنہ کرنا اور ایک کو دوسرے پر فضیلت یا ترجیح دینا قطعی لغو اور محض اپنے وہم و گمان کی پیروی کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر حدیث کے ردوقبول کے لئے جناب اصلاحی کے پاس ’’تدبر و فہم حدیث‘‘ (اور فقہائے حنفیہ کے پاس ’فقہ راوی‘) کی جانچ اور پرکھ کے لئے ایسا کون سا پیمانہ موجود ہے کہ جس کی بنیاد پر ایک راوی کو دوسرے راوی پر ترجیح دی جا سکے گی؟ شاید خود ان حضرات کو بھی یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو گا کہ ’’تدبر حدیث‘‘ (یا ’’فقاہت‘‘) کی کتنی مقدار ان کو مطمئن کر سکتی ہے؟ پس جب اس چیز کی کوئی تعیین نہیں ہو سکتی تو پھر ایسی غیر معین چیز کو رد و قبول کے میزان کی حیثیت سے کیوں کر قبول کیا جا سکتا ہے؟ واقعہ یہ ہے جناب اصلاحی صاحب نے عیسیٰ بن ابان اور ابو زید دبوسی وغیرہ کی اتباع میں اس مختلف فیہ حنفی اصول کو ایک نئے عنوان کے ساتھ پیش کر کے اعتزال کی طرف اپنے میلان کو ثابت کیا ہے، فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ واللّٰه المسئول ان يهدينا سواء الطريق و أن يسلك بنا مسالك التحقيق و أن يرزقنا التسديد والتوفيق و أن يجعلنا في الذين أنعم عليهم مع خير فريق و أعلي رفيق اٰمين اٰمين۔ •••
Flag Counter