تذکرہ ہم نے اوپر اس باب کے حصہ اول میں کیا ہے، تو یقیناً آں محترم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عنداللہ و عندالرسول جو مقام و مرتبہ متعین ہے اسے بیان کرتے ہوئے صرف مذکورہ ایک ہی پہلو پر زور نہ دیتے۔
تعدیل صحابہ پر ایک موضوع حدیث سے استدلال:
جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعدیل حدیث میں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جو درجہ دیا ہے وہ متعدد حدیثوں سے واضح ہے ہم ’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘ سے بطور مثال ایک حدیث نقل کرتے ہیں:
’’مَهما أوتِيْتم مِنْ كِتَاب اللّٰه وَالْعَمل بِهٖ، لَا عذر لِأَحْد فِيْ تَرك شيء مِنْ كِتَاب اللّٰه، وَسُنَّة مِنِّيْ مَاضِية، فَإِن لَّمْ تَكن سُنَّة مِنِّي مَاضِية، فَمَا قَالَ أَصْحَابِيْ، إِن مثل أَصْحَابِيْ كَمِثْل النجوم، فبأيهم اقتديتم اهتديتم‘‘ (وَاخْتِلَاف أَصْحَابِيْ لَكُمْ رَحْمَة)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تمہیں کتاب اللہ میں سے ملا ہے اس پر عمل واجب ہے، اس کے ترک کے لئے تمہارا کوئی عذر مسموع نہیں ہے پس اگر کتاب اللہ میں کوئی بات نہ ملے تو جو میری سنت چلی آ رہی ہو اس پر عمل کرو۔ اگر میری کوئی ماثور سنت نہ ہو تو جو میرے اصحاب نے کہا اس پر چلو۔ بےشک میرے اصحاب آسمان کے ستاروں کی منزلت میں ہیں، ان میں سے جس کو بھی اختیار کرو گے رہنمائی پاؤ گے، (اور میرے اصحاب کا اختلاف بھی تمہارے لئے باعث رحمت ہے)۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتانے والے بھی ہیں اور خود بھی رہنمائی کے مینار ہیں۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے علم و عمل کے منتقل ہونے کا ذریعہ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شرف کی جو بنیاد خود بتائی وہ ان کا ذریعہ ہدایت ہونا ہے۔‘‘ [1]
افسوس کہ جناب اصلاحی صاحب کو تعدیل صحابہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور صحیح احادیث میں سے کوئی حدیث بھی نہ بھائی۔ اس سلسلہ میں آں محترم نے جو حدیث ’’الکفایۃ‘‘ کے حوالہ سے نقل کی ہے وہ قطعاً ’’خانہ ساز‘‘ اور من گھڑت ہے، پھر دوسری افسوس ناک بات یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے منقولہ بالا حدیث کا آخری حصہ (جو اوپر بریکٹ کے درمیان لکھا گیا ہے، یعنی: ’’ وَاخْتِلَاف أَصْحَابِيْ لَكُمْ
|