Maktaba Wahhabi

278 - 363
آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں: ’’نہایت عمیق مطالعے اور غوروفکر کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جہاں تک اہل تصوف کے اصل دین سے انحراف پر مبنی خیالات اور تصورات اعمال کا تعلق ہے یہ بیشتر محدثین کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کمزور روایات کا ایک دفتر کھول دیا جس سے من پسند تصورات دین نے جنم لیا، گویا معاملہ اصلاح اعمال تک ہی محدود نہ رہا بلکہ ان روایات سے عقائد بھی متأثر ہوئے اور یہ لَے اس قدر بڑھی کہ دین کے نام سے نئے عقائد، نئے اعمال اور نئے اخلاق تیار کر لئے گئے۔ جب اہل تصوف کے اس ناحق تجاوز کو محدثین نے ان کی سراسر زیادتی قرار دیا اور ان کے خیالات پر گرفت کی، تو معلوم ہوا کہ پانی سے سر گزر چکا تھا۔ اس لئے جواب میں انہیں یہ طعنہ دیا گیا کہ محدثین کا کام تو راویوں کی غیبت کرنا ہے اور ان کا جرح و تعدیل کا کام اس حرام کام کے ارتکاب پر مبنی ہے۔ تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل تصوف نے محدثین کے انتباہ کو درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ اس طرح محدثین کا یہ خیال کہ اگر وہ حلال و حرام اور سنن و احکام کے بارے میں احتیاط کر لیں گے اور ترغیب و ترہیب اور فضائل اعمال وغیرہ سے متعلق روایات میں تساہل برت لیں گے تو امت پر اس کے برے اثرات نہ پڑیں گے، بالکل غلط بلکہ مہلک ثابت ہوا۔ فی الحقیقت روایات میں اس تساہل کے نتیجے میں کمزور روایات کی بھرمار تصوف کی کتابوں میں ہو گئی اور ان سے دین کا تصور جس قدر مسخ ہوا ہے وہ مخفی نہیں ہے بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ ان کی بدولت دین کا ایک متوازی تصور قائم ہو گیا جس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عمل میں ہمیں نہیں ملتی۔‘‘ [1] متصوفین کے اصل دین سے انحراف کے ذمہ دار محدثین کرام نہیں ہیں: یہاں جناب اصلاحی صاحب کا یہ فرمانا قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے کہ ’’اہل تصوف کے اصل دین سے انحراف پر مبنی خیالات اور تصورات اعمال کا تعلق بیشتر محدثین کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے‘‘، خواہ آں محترم ’’نہایت عمیق مطالعے اور غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے‘‘ ہوں، کیونکہ یہ ضروری تو نہیں کہ کوئی فرد کسی معاملہ میں نہایت عمیق مطالعہ اور غوروفکر کے بعد جو نتیجہ اخذ کرے اس سے ہر شخص متفق ہو جائے یا وہ نتیجہ صد فی صد درست ہی ہو۔ انسان کا اپنا جیسا ذہن اور جیسا انداز فکر ہو گا اور جیسے وسائل اسے میسر ہوں گے ویسا ہی نتیجہ برآمد ہو گا۔ چونکہ جناب اصلاحی صاحب نے قبل از تحقیق و تدبر ہی یہ ذہن تیار کر رکھا تھا کہ دین میں پیدا ہونے والی تمام برائیوں اور فتنہ و فساد کا ذمہ دار اکیلے محدثین کرام کو ہی ٹھہرانا ہے لہٰذا انہیں اپنی موافقت میں وسائل و دلائل تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی ہو گی۔ ان حالات میں جو نتائج جناب اصلاحی صاحب نے اخذ کئے ہیں ان کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا تھا۔ مگر محترم اصلاحی صاحب کے برخلاف ہم اپنے ’’عمیق مطالعے اور غوروفکر‘‘ سے جس نتیجہ پر پہنچے
Flag Counter