Maktaba Wahhabi

213 - 363
روایات بھی ذکر کی ہیں، اور زیر مطالعہ حدیث کا تعلق بھی انہی زوائد سے ہے۔ ان زوائد کے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: ’’أدخل كتابه واهية لو تنزه عنها لأجاد‘‘[1]یعنی انہوں نے اپنی کتاب میں واہی زیادات داخل کر دی ہیں۔ اگر وہ ان سے اسے پاک رکھتے تو اچھا ہوتا‘‘۔ لہٰذا خطیب تبریزی رحمہ اللہ کے رزین کی طرف اس کی نسبت بیان کرنے سے اس کی کوئی اصل ثابت نہیں ہوتی۔ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حديث باطل و إسناده واه جدا‘‘[2]یعنی ’’یہ حدیث باطل ہے اور اس کی اسناد بہت زیادہ واہی ہے‘‘۔ فن اسماء الرجال کی ضرورت، اہمیت اور عظمت کے متعلق جناب اصلاحی صاحب کی رائے: آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب فن جرح و تعدیل کی ضرورت و اہمیت پر مختصراً یوں روشنی ڈالتے ہیں: ’’جہاں تک سلسلہ روایت کے باقی راویوں کا تعلق ہے وہ سب کے سب تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ ان سب کی امانت و دیانت، علمی مرتبہ، حافظہ، دین پر عمل، ہر چیز کو پرکھا جاتا ہے اور ائمہ فن کی ان کے بارے میں آراء کو جمع کیا جاتا ہے۔ اس اہتمام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ روایت حدیث میں کوئی خرابی راہ نہ پائے۔ اسی اہم ضرورت نے فن اسماء الرجال کی راہ ہموار کی‘‘۔ [3] پھر ’’سند کا اہتمام اور فن اسماء الرجال کی ایجاد‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت فن جرح و تعدیل کا تعارف اور اس بارے میں محدثین کی مساعی جمیلہ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’علم حدیث کی حفاظت کے لیے سند کا باقاعدہ اور فن اسماء الرجال کی ایجاد مسلمانوں کا ایک کارنامہ ہے جس میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جرح و تعدیل کا یہ فن مسلمانوں کا خاص فن ہے۔ جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احوال کی روایت، تحریر اور تدوین کا کام سرانجام دیا ان راویان حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، تبع تابعین اور بعد کے تیسری صدی ہجری تک کے لوگ شامل ہیں، جن کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے اور ملنے والوں میں سے کم و بیش بارہ ہزار اشخاص کے نام اور حالات ہمیں ملتے ہیں۔ ان تمام رواۃ حدیث کے حالات معلوم کرنے اور ان کے طبقات قائم کرنے میں ہزاروں اکابرین امت نے اپنی عمریں کھپا دیں۔ وہ قریہ قریہ پہنچے، راویوں سے ملے، ان کے متعلق ہر قسم کی معلومات مہیا کیں اور جو لوگ خود
Flag Counter