Maktaba Wahhabi

216 - 363
بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ متن پر غور کیا جائے۔ قرآن و حدیث کے مجموعی علم سے دین کا جو فہم ہمیں حاصل ہوا ہے۔ اس کا لحاظ بھی کیا جائے اور حدیث کی وہ مخصوص روایت جس معاملہ سے متعلق ہے اس معاملہ میں قوی تر ذرائع سے جو سنت ثابتہ ہمیں معلوم ہوا اس پر بھی نظر ڈالی جائے۔ علاوہ بریں اور بھی متعدد پہلو ہیں جن کا لحاظ کئے بغیر ہم کسی حدیث کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دینا درست نہیں سمجھتے الخ‘‘۔ [1] اسی طرح آں موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’—یہ تو فن رجال کا معاملہ ہے۔ اس کے بعد دوسری اہم چیز سلسلہ اسناد ہے۔ محدثین نے ایک ایک حدیث کے متعلق یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے کہ، ہر راوی جس شخص سے روایت لیتا ہے آیا وہ اس کا ہم عصر تھا یا نہیں، ہم عصر تھا تو اس سے ملا بھی تھا یا نہیں، اور ملا تھا تو آیا اس نے یہ خاص حدیث خود اسی سے سنی یا کسی اور سے سن لی اور اس کا حوالہ نہیں دیا۔ ان سب چیزوں کی تحقیق انہوں نے اسی حد تک کی ہے جس حد تک انسان کر سکتے تھے، مگر یہ لازم نہیں کہ ہر روایت کی تحقیق میں یہ سب امور ان کو ٹھیک ٹھیک ہی معلوم ہو گئے ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ جس روایت کو وہ متصل السند قرار دے رہے ہیں وہ درحقیقت منقطع ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا ہو کہ بیچ میں کوئی ایسا مجہول الحال راوی چھوٹ گیا ہے، جو ثقہ نہ تھا۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ جو روایتیں مرسل، یا معضل یا منقطع ہیں اور اس بناء پر پایہ اعتبار سے گری ہوئی سمجھی جاتی ہیں، ان میں سے بعض ثقہ راویوں سے آئی ہوں اور بالکل صحیح ہوں۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے امور ہیں جن کی بناء پر اسناد اور جرح و تعدیل کے علم کو کلیتاً صحیح نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ مواد اس حد تک قابل اعتماد ضرور ہے کہ سنت نبوی اور آثار صحابہ کی تحقیق میں اس سے مدد لی جائے اور اس کا مناسب لحاظ کیا جائے مگر اس قابل نہیں ہے کہ بالکل اسی پر اعتماد کر لیا جائے‘‘۔[2] یہ ہے جناب مودودی و اصلاحی صاحبان کے پرفریب ’’سند کی عظمت و اہمیت‘‘ کے دعویٰ کی حقیقت، لیکن امت سند کی جس عظمت و اہمیت کی قائل چلی آ رہی ہے اس کا ایک خاکہ زیر نظر باب کے حصہ اول میں قرآن و سنت کی نصوص، سلف و صالحین کے اقوال، نیز اس کی ابتداء کی تاریخ اور محدثین کے اس پر اعتماد کرنے کے اسباب وغیرہ کی روشنی میں پیش کیا جا چکا ہے۔ قارئین کرام اگر ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے جناب مودودی اور اصلاحی صاحبان کی منقولہ بالا عبارتوں پر غور کریں تو خود بخود یہ حقیقت ان پر واضح ہو جائے گی کہ ان دو حضرات نے اسلاف کی جہدومساعی کو گہنا دینے میں ذرہ برابر بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ بہرحال ذیل میں جناب اصلاحی صاحب کی منقولہ عبارت پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں: حدیث کے غالی حامیوں سے اصلاحی صاحب کی مراد: نہ معلوم یہاں جناب اصلاحی صاحب کی ’’حدیث کے بعض غالی حامیوں‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اگر یہ بھی
Flag Counter