Maktaba Wahhabi

215 - 363
ایک کسوٹی ہے‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت اولین چار سطور میں ضمناً سند کی اہمیت و عظمت کو بیان کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ کسی حدیث کے صدق و کذب کے فیصلہ میں سند کے اہم کردار کا خود اعتراف کرنے کے بعد جناب اصلاحی صاحب نے اس کے تمام محاسن پر پانی پھیر دیا ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں: ’’سند کو کسی حدیث کے صدق و کذب کے فیصلہ میں ایک اہم، بلکہ اولین عامل کی حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی حدیث کی تحقیق کے لئے سب سے پہلے اس کی سند پر نظر پڑے گی اور اس کے متن پر غور کرنے سے پہلے اس کی جانچ کرنا پڑے گی۔ اس جائزے کی روشنی میں اس روایت کا درجہ متعین کیا جائے گا۔ سند کی اس اہمیت سے انکار کی کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن حدیث کے بعض غالی حامیوں کا یہ خیال ہے کہ کسی حدیث کی صحت کے ثبوت کے لئے مجرد اس کی سند کا علم اصول کے معیار پر پورا ہونا کافی ہے۔ یعنی ان کے نزدیک صحت حدیث کے لئے صرف سند کی صحت اور اس کا قابل اعتماد ہونا فیصلہ کن امر ہے۔ ہمارے نزدیک ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ یہ غلو پر مبنی اور محض حسن ظن ہے۔ یہ سلف کی ساری تحقیقات، جن کا ہم نے اوپر اجمالی خاکہ پیش کیا، کو گہنا دیتا ہے۔ اس لئے اس مسئلے پر ہم ذرا تفصیلی بحث کریں گے۔ سند کے تمام محاسن، لطائف، عظمت، اہمیت اور اس کے مطابق معیار ہونے کے باوجود اس میں بعض ایسے فطری خلا رہ جاتے ہیں۔ جن کی تلافی کے لئے ضروری ہے کہ حدیث کی صحت کو جانچنے کے لئے سند کے سوا بعض دوسرے طریقے بھی اختیار کئے جائیں۔ مجرد سند پر اعتبار کر کے کسی روایت کی صحت اور حسن و قبح کے متعلق پوری طرح سے اطمینان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو آپ مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہمیں کسی درخت کی تحقیق مقصود ہو تو محض اس کی جڑ کی کیفیت کا مطالعہ کافی نہیں ہو گا بلکہ جڑ کے علاوہ اس کے تنے، ٹہنیوں، پتوں اور پھل پھول وغیرہ کا بھی مکمل جائزہ لینا پڑے گا، تب کہیں جا کر اس درخت کے متعلق اہم جامع اور حتمی رائے قائم کر سکیں گے‘‘۔ [1] اسی طرح جناب سید ابوالاعلی مودودی صاحب سند کی لازوال عظمت کو ماند کرنے کے لئے کسی ٹھوس علمی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض عقلی مفروضوں اور استحالات کی بنیاد پر، اس کی خامیاں بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’—اصل واقعہ یہ ہے کہ کوئی روایت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، اس کی نسبت کا صحیح و معتبر ہونا بجائے خود زیر بحث ہوتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر اس روایت کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مان لینا ضروری ہے جسے محدثین سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیں لیکن ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے۔ ہم سند کی صحت کو حدیث کے صحیح ہونے کی لازمی دلیل نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک سند کسی حدیث کی صحت معلوم کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے بلکہ وہ ان ذرائع میں سے ایک ہے جن سے کسی روایت کے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم یہ
Flag Counter