Maktaba Wahhabi

279 - 363
ہیں وہ یہ ہے کہ اصل دین سے انحراف پر مبنی صوفیانہ خیالات اور تصورات عمل دراصل جسد اسلامی میں فلسفیانہ موشگافیوں اور رہبانیت کے متعدی جراثیم داخل ہو جانے سے وجود میں آئے ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ صوفیاء کو کتب احادیث سے اپنی فکر کی تائید میں جو بھی حدیث مل سکی اسے انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا خواہ وہ صحیح ہو یا کہ ضعیف یا موضوع۔ مثال کے طور پر ہم یہاں صوفیاء کے نزدیک نظریہ وحدۃ الوجود کے اثبات کے لئے بہت ہی مقبول اس حدیث قدسی کو پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میں اپنے بندہ کی سماعت و بصارت بن جاتا ہوں، اس کے ہاتھ و پیر بن جاتا ہوں‘‘۔ پس معلوم ہوا کہ صوفیاء کو قرآن و حدیث کے احکام اور تقاضوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، اگر کبھی انہوں نے قرآن و حدیث کا نام لیا بھی ہے تو صرف اپنے اتحادی دین کی مخصوصن اصطلاحات یا اپنے مشرکانہ و ملحدانہ افکار باطلہ کو سند جواز دینے کے لئے، واللہ أعلم۔ جب کبھی انہیں ذخیرہ احادیث میں اپنے ان افکار باطلہ کی تائید میں کوئی معقول اور وزنی دلیل میسر نہ آئی تو انہوں نے اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لئے نمبر دو کا راستہ (یعنی خود جعلی حدیثیں گھڑنے کا سہل ترین راستہ) اپنایا۔ صوفیاء اور زہاد کا احادیث وضع کرنا معروف ہے: حافظ ابن الصلاح، علامہ سیوطی اور ملا طاہر پٹنی گجراتی وغیرہم رحمہم اللہ نے احادیث گھڑنے والوں میں سب سے زیادہ ضرر رساں صوفیاء اور زھاد کو بتایا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’حدیث گھڑنے والوں کی کئی قسمیں ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ مضر وہ ہیں جو زہد کی جانب منسوب ہیں۔ وہ اپنے فاسد خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر پانے کی نیت سے حدیث وضع کرتے ہیں اور لوگ ان کی موضوعات کو انہیں ثقہ جان کر قبول کر لیتے ہیں۔‘‘ [1] امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ کے مقدمہ میں یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ (198ھ) سے روایت کی ہے: ’’لم نر الصالحين في شيء أكذب منهم في الحديث‘‘ [2] یعنی ’’ہم نے صوفیاء سے زیادہ کسی کو حدیث کے معاملہ میں جھوٹ بولنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے: ’’لم تر أهل الخير في شيء أكذب منهم في الحديث‘‘ [3] یعنی ’’اہل الخیر یعنی صوفیاء سے زیادہ حدیث کے معاملہ میں تو کسی کو جھوٹا نہ دیکھے گا۔‘‘ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter