’’يعني أنه يجري الكذب علي لسانهم ولا يعتمدون الكذب‘‘ [1]
یعنی ’’جھوٹ ان کی زبانوں پر بے ساختہ جاری ہو جاتا ہے خواہ ان کا جھوٹ بولنے کا ارادہ بھی نہ ہو۔‘‘
اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لكونهم لا يعانون صناعة أهل الحديث فيقع الخطأ في روايتهم ولا يعرفونه و يروون الكذب ولا يعلمون أنه كذب‘‘ [2]
امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول مختلف کتب میں تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ یوں بھی وارد ہے:
’’لم نجد الصالحين أكذب منهم في الحديث‘‘ [3]
اور
’’ما رأيت الكذب في أحد أكثر منه فيمن ينسب إلي الخير‘‘ [4]
صوفیاء کی احادیث کے متعلق حافظ ابو عبداللہ ابن مندہ رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’إذا رأيت في حديث حدثنا فلان الزاهد فاغسل يدك منه‘‘ [5]
یعنی ’’جب تم کسی حدیث میں دیکھو کہ فلاں زاہد نے مجھ سے روایت کی ہے تو اس سے دست بردار ہو جاؤ۔‘‘
علامہ ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ ’’اصناف الوضاعین‘‘ کی پانچویں صنف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’زہد کی طرف منسوب جماعت نے بزعم خود انسانوں کی خیر کی طرف راغب کرنے اور شر سے ڈرانے کے لئے ترغیب و ترہیب سے متعلق احادیث وضع کرنا دینداری سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ بات جہل کی پروردہ ہے۔ اس چیز کو کرامیہ فرقہ اور بعض صوفیاء نے بھی جائز قرار دیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ نزغات الشیطان میں سے ہے – شیخ الاسلام امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس بارے میں ان لوگوں نے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف کام کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب تعمد کی تحریم کا لحاظ نہیں کیا ہے حالانکہ یہ کبائر میں سے ہے۔ بلکہ شیخ ابو محمد الجوینی رحمہ اللہ نے تو اسے کفر تک بتایا ہے۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ نے حنابلہ میں سے ابو الفضل الھمدانی شیخ ابن عقیل رحمہ اللہ سے ان کا جوینی رحمہ اللہ کے قول کے ساتھ اتفاق نقل کیا ہے۔ اور حافظ ذہنی رحمہ اللہ کتاب الکبائر میں فرماتے ہیں: بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ پر تحلیل حرام یا تحریم حلال میں عمداً کذب کفر محض ہے الخ۔‘‘ [6]
|