Maktaba Wahhabi

281 - 363
’’متدین طبقہ نے بزعم خود انسانوں کو اعمال خیر کی طرف ترغیب دلانے کے لئے احادیث گھڑی ہیں۔ یہ لوگ زہد کی طرف منسوب تھے لیکن انسانوں کے لئے عظیم ضرر رساں تھے۔‘‘ [1] امام ابن الجوزی رحمہ اللہ وضاعین کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پہلی قسم: وہ جماعت جن پر زہد و تقشّف کا غلبہ تھا پس انہوں نے حفظ و تمیز میں غفلت برتی الخ۔‘‘ [2] امام ابن حبان رحمہ اللہ ’’انواع جرح الضعفاء‘‘ کی نوع خامس کے تحت فرماتے ہیں: ’’ان میں وہ لوگ ہیں جن پر صلاح و عبادت کا غلبہ تھا لیکن وہ حفظ و تمیز میں غافل تھے، پس جب حدیث بیان کرتے تو مرسل کو مرفوع، موقوف کو مسند کر دیتے اور اسانید کو الٹ پلٹ کر دیتے تھے الخ۔‘‘ [3] شیخ عز الدین بلیق ’’وضع الحدیث و أسبابہ‘‘ کے تحت چھٹا سبب ’’الجہل بالدین مع الرغبۃ فی الخیر‘‘ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ وہ چیز ہے جسے کثیر تعداد میں زہاد، عباد اور صالحین نے کیا ہے۔ یہ لوگ ترغیب و ترہیب میں حدیثیں گھڑا کرتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ایسا کر کے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتے اور اسلام کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ جب علماء نے ان پر نکارت کی اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد دلایا: ’’مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ‘‘ تو ان میں سے بعض نے جواب دیا کہ: ’’نحن نكذب له صلي اللّٰه عليه وسلم ولا نكذب عليه‘‘ یعنی ہم آں صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جھوٹ بولتے ہیں، ان پر جھوٹ نہیں بولتے – ایسے لوگوں میں ایک زاہد شخص تھا جو عبادت کے لئے کنارہ کش ہو گیا تھا، عوام کا محبوب تھا اور اس کے موت کے دن بغداد کا تمام بازار بند ہو گیا تھا اس نے اس کے باوجود ترقیق القلوب کی بہت سی احادیث گھڑی تھیں اور خود اس بات کا اعتراف بھی کر لیا تھا: ’’وضعناها لترقق بها قلوب العامة‘‘[4]الخ‘‘۔ [5] اور جناب عبدالرحمان بن عبیداللہ رحمانی فرماتے ہیں: ’’قصد التقرب إلي اللّٰه تعاليٰ بوضع ما يرغب الناس في طاعته و يرهبهم عن معصيته كما فعل المتصوفة‘‘ [6] ذیل میں ہم صالحین و زہاد میں سے چند معروف وضاعین کی مثالیں پیش کرتے ہیں: ’’امام حاکم رحمہ اللہ نے ابو عمار مروزی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کسی کو ابو عصمہ نوح بن ابی مریم سے پوچھتے
Flag Counter