گزر چکا ہے کہ آں رحمہما اللہ اس بات کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث شخصی قیاس اور رائے سے قوی تر ہے۔‘‘ [1]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ [2] اور امام شافعی [3] رحمہما اللہ کا ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم فرمانا، امام مالک [4] کا مرسل و منقطع احادیث کو قیاس پر ترجیح دینا اور علمائے حنفیہ کے نزدیک بھی ضعیف حدیث کا قیاس و اجتہاد سے اولیٰ ہونا [5] کتب مصطلحات میں بصراحت مذکور ہے۔
علماء جن کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال وغیرہ میں بلا قید و شرط مقبول ہے
علماء کا یہ گروہ احکام شرعی اور عقائد میں ضعیف حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتا مگر فضائل اعمال، ترغیب و ترہیب اور مناقب وغیرہ کے باب میں ضعیف احادیث کو غیر مشروط طریقہ پر قبول کرنے کا قائل ہے۔ اس فکر کے قائل حضرات میں ابو زکریا العنبری، عبدالرحمان بن مہدی، احمد بن حنبل، عبداللہ بن مبارک، بیہقی، نووی، ابن الصلاح، ابن عبدالبر، علاء الدین بن محمد بن علی الحصکفی الحنفی، ابن عابدین حنفی، ابن حجر الہیثمی المکی، جلال الدین سیوطی، ملا علی قاری حنفی اور ابن الھمام حنفی وغیرہم کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ ان تمام حضرات کا موقف یہ ہے کہ:
’’جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال و حرام اور احکام کی کوئی خبر روایت کرتے ہیں تو اسانید میں تشدد اور رجال میں تنقید سے کام لیتے ہیں مگر جب فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب وغیرہ میں کوئی خبر روایت کرتے ہیں تو اسانید میں تساہل اور رجال میں میں تسامح کو روا رکھتے ہیں۔‘‘
تفصیل کے لئے حاشیہ [6] کے تحت درج کردہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
|