Maktaba Wahhabi

190 - 363
نسيه‘‘[1]اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’اگر مجھے اختیار دیا جاتا کہ چاہو تو بہشت میں داخل ہو جاؤ یا عبداللہ بن محرر سے ملاقات کر لو تو میں اس بات کو پسند کرتا کہ پہلے عبداللہ بن محرر سے ملاقات کروں پھر بہشت میں داخل ہو جاؤں۔ لیکن جب میں نے اسے دیکھا تو اسے اس حال میں پایا کہ مجھے اونٹ کی چند مینگنیاں بھی اس سے زیادہ عزیز ہیں‘‘۔ [2] مذکورہ بالا چند واقعات کو دیکھ کر ائمہ جرح و تعدیل کی عظمت اور رفعت شان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ائمہ جرح و تعدیل کی نزاہت کو یوں سمجھ لیں کہ: ’’وہ لوگ اس معاملہ میں ہر قسم کے دنیاوی مفاسد مثلاً انحراف، ترک انصاف، اطراء اور افتراء وغیرہ سے محفوظ تھے‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’والمتقدمون سالمون منه غالبا منزهون عنه لوفور ديانتهم‘‘ [3] آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’فعدلوا و جرحوا ووهنوا و صححوا ولم يحابوا أبا ولا ابنا ولا أخاه‘‘ [4] کیا رواۃ حدیث پر جرح غیبت ہے؟ بعض صوفیاء کا خیال ہے کہ راویوں پر جرح کرنی جائز نہیں ہے، کیونکہ جرح میں رواۃ کے عیوب کا ذکر کیا جاتا ہے، اور کسی کے ان عیوب کا ذکر جو اس میں موجود ہوں شرعاً غیبت کہلاتا ہے، جو کہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: [وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا] [5] ’’اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے‘‘۔ اس کے علاوہ یہ حضرات مندرجہ ذیل احادیث نبوی سے بھی اپنے مؤقف پر استدلال کرتے ہیں: 1- ’’يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الإِيمَانُ قَلْبَهُ لاَ تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ‘‘ [6] 2- قيل يا رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟ قَالَ: ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ.» قِيلَ: «أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ: إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ
Flag Counter