ہو گا۔ میں کہتا ہوں کہ ان کے مصنفین نے اختصار کے پیش نظر سبب جرح درج نہیں کیا ہے الخ‘‘۔ [1]
پس معلوم ہوا کہ ثقہ اور صاحب بصیرت ائمہ، جو اسباب جرح و تعدیل سے بخوبی واقف ہوں، کے اقوال جرح و تعدیل کو بدون ذکر تفسیر قبول کرنے پر تمام اہل علم حضرات کا اتفاق ہے، [2] واللہ اعلم۔
جرح و تعدیل میں ائمہ فن کی قابل رشک نزاہت و دیانت
ان علمائے جرح و تعدیل نے اللہ عزوجل کے دین، بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی خدمت میں انتہائی اخلاص اور ورع کا ثبوت دیا ہے۔ رواۃ کے احوال کی حتی الامکان معرفت کے لئے ان کی انتہائی جدوجہد، صبر و ایثار بلاشبہ مسلمانوں کے لئے قابل فخر سرمایہ ہے۔ اخبار و احادیث کے ردوقبول، رواۃ حدیث پر جرح و تعدیل اور حدیث کی تصحیح و تضعیف میں وہ کسی عزیز داری یا قرابت کا پاس بھی نہیں رکھتے تھے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر بیٹا اپنے باپ کی خبر میں یا باپ اپنے بیٹے کی خبر میں یا بھائی اپنے بھائی کی خبر میں کوئی قابل جرح چیز دیکھتا تو ہر رحم و صلہ اور ہر طرح کے لومۃ لائم سے بے نیاز ہو کر فقط اللہ عزوجل کی خوشنودی کے لئے اسے بیان کر دیتا تھا۔ [3]ذیل میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
زید بن انیسہ (م 124ھ) اپنے بھائی کے متعلق فرماتے تھے: ’’لا تكتب عن أخي فإنه كذاب‘‘[4]یعنی ’’میرے بھائی یحییٰ سے احادیث نہ لکھو کیونکہ وہ کذاب ہے‘‘۔ اسی طرح وکیع بن الجراح (م 197ھ) اگر اپنے والد کہ جو بیت المال پر مامور تھے، سے حدیث روایت کرتے تو ان کے ساتھ کسی دوسرے کی تائید کو ضرور ملحوظ رکھتے تھے کیونکہ ان میں ضعف موجود تھا۔ [5] اور مشہور محدث علی بن المدینی رحمہ اللہ (م 234ھ) اپنے والد عبداللہ بن جعفر سے روایت بیان نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’إنه ضعيف‘‘[6]اور امام ابو داؤد سجستانی رحمہ اللہ (م 275ھ) اپنے فرزند کے متعلق فرماتے تھے: ’’ابني عبداللّٰه كذاب‘‘[7]یعنی ’’میرا بیٹا عبداللہ کذاب ہے‘‘۔ اور امام ذہبی رحمہ اللہ اپنے فرزند ابو ہریرہ کے متعلق فرماتے تھے: ’’إنه حفظ القرآن ثم تشاغل عنه حتي
|