دقت محسوس نہیں کرتا۔ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ بعض احادیث کے متعلق یوں کلام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں: ’’لا يثبته أهل العلم بالحديث‘‘ اور اس کو رد کرتے ہوئے مجرد اس سے حجت نہیں پکڑتے‘‘۔ [1]
علامہ سخاوی رحمہ اللہ چوتھے مسلک کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسے قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ نے خود اختیار کیا اور جمہور سے نقل کیا ہے – خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی پہلے قول کی تصویب و تقریر کے بعد اس چوتھے قول ہی کو اختیار کیا ہے۔ پس فی الجملہ یہ امر اس چیز کے خلاف ہے جسے حافظ ابن الصلاح نے اختیار کیا ہے۔ (یعنی یہ کہ جرح مبہم غیر مقبول ہے) لیکن ابن جماعہ کا قول ہے: یہ قول مستقل نہیں ہے بلکہ محل نزاع ہے۔ اگر جارح یا معدل اسباب جرح و تعدیل کا عالم نہ ہو تو اس کی جرح قبول کی جائے گی اور نہ ہی تعدیل نہ بالاطلاق اور نہ ہی بالتقیید‘‘۔ [2]
آں رحمہ اللہ اپنی اس رائے کو بعض دوسرے مقامات پر یوں درج فرماتے ہیں: ’’وكون المعتمد عدمه من العالم بأسبابهما‘‘[3]اور ’’و أن المعتمد قبولهما من العارف بأسبابهما بدون تفسير‘‘ [4]
حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی ’’تدریب الراوی‘‘ میں اول الذکر قول کو ترجیح دیتے ہوئے ’’الصحیح‘‘ قرار دیا ہے، لیکن اپنی دوسری کتاب ’’الأشباہ والنظائر‘‘ میں شہادت و روایت کے مابین فرق شمار کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’چودہواں فرق یہ ہے کہ روایت میں عالم کی غیر مفسر جرح و تعدیل مقبول ہے لیکن شہادت میں اس کی جرح مقبول نہیں ہے الا یہ کہ مفسر ہو‘‘۔ [5]
علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک مستقل عنوان یوں قائم کیا ہے: ’’الاعتماد في جرح الرواة و تعديلهم علي الكتب المصنفة في ذلك‘‘ اور اس کے تحت فرماتے ہیں:
’’یہ امر مخفی نہیں ہے کہ لوگوں نے ائمہ حدیث کے ذریعہ رواۃ حدیث کی جرح و تعدیل پر لکھی جانے والی کتب پر اعتماد کیا ہے۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں کہتا کہ: ان ائمہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ کسی راوی پر اس وقت تک جرح ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ وہ مفسر نہ ہو۔ ان میں سے بعض مختصر تصانیف میں ائمہ حدیث جرح کا سبب بیان نہ کر کے مختصرا فقط یوں لکھ دیتے ہیں: ضعیف یا مستور۔ جرح مفسر کی شرط لگانے کا مطلب ان تمام مصنفات کو معطل کرنا
|