کے بیان کے وجوب) [1]کے برعکس اپنی دوسری کتاب ’’المستصفی‘‘[2]میں چوتھے مسلک کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ کا قول ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں:
’’إذا جرح من لا يعرف الجرح يجب الكشف عن ذلك ولم يوجبوا ذلك علي أهل العلم بهذا الشأن – والذي يقوي عندنا ترك الكشف عن ذلك إذا كان الجارح عالما كما لا يجب استفسار المعدل عما به صار عنده المزكي عدلا‘‘ [3]
علامہ تاج الدین السبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إنه لا تعديل ولا جرح إلا من العالم‘‘[4]امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اپنی ’’السنن الکبریٰ‘‘ کے ایک باب کو یوں معنون فرمایا ہے: ’’باب لا يقبل الجرح فيمن ثبتت عدالته إلا بإن نقف علي ما يجرح به‘‘ [5]
علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقال آخرون لا يجب ذكر سبب الجرح والتعديل جميعا لأنه إن لم يكن – أي الجارح والمعدل – بصيرا بهذا الأمر فلا يصلح للتزكية والجرح و إن كان بصيرا فأي معني للسؤال – والصحيح أن هذا يختلف باختلاف أحوال المزكي فمن حصلت الثقة ببصيرته و ضبطه يكتفي بإطلاقه ومن عرفت عدالته في نفسه ولم تعرف بصيرته بشروط العدالة فقد يراجع و يستفسر‘‘ [6]
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں کہ ان ائمہ حدیث کے کلام کو بغیر ذکر سبب کے بھی مسلم ماننا چاہیے۔ جب وہ کسی شخص کو ضعیف یا متروک یا کذاب وغیرہ کے طبقات میں بیان کرتے ہیں تو یہ معرفت رواۃ کے ضمن میں ان کے علم اور اس بارے میں ان کی اطلاع و اضطلاع، ان کی دیانت و تجربہ اور انصاف و نصح سے متصف ہونے کے باعث ہے۔ چنانچہ ایک ماہر محدث ان ائمہ کی امانت، صدق اور نصح کے باعث ان کے ایسے غیر مفسر اقوال کی موافقت کرنے میں کوئی
|