’’ويعمل بالضعيف أيضا في الاحكام إذا كان فيه احتياط‘‘ [1]
شاید یہی وجہ ہے کہ کتب فقہ میں ضعیف احادیث سے احتجاج کو صرف فضائل اعمال تک ہی محدود نہیں رکھا گیا ہے بلکہ اس سے تجاوز کر کے احکام میں بھی ان سے احتجاج کیا گیا ہے۔ جن لوگوں کی نظر کتب ادلۃ الأحکام یا ان کتب پر ہے جن میں کتب پر ہے جن میں کتب فقہ کی احادیث کی تخریج و تحقیق کی گئی ہے، وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ نے بھی فقہاء کے ضعیف حدیث سے احکام میں احتجاج کرنے پر تنقیداً یوں اشارہ فرمایا ہے:
’’ائمہ حدیث کسی بھی حال میں ضعفاء سے کوئی چیز روایت نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے احتجاج کرتے ہیں۔ ائمہ محدثین اور علمائے محققین میں سے کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کیا ہے مگر بہت سے فقہاء بلکہ اکثر فقہاء ایسا کرتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں جو صواب نہیں بلکہ انتہائی قبیح بات ہے الخ۔‘‘ [2]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا غیر احکامی روایات کی اسناد میں تساہل فرمانے کا مطلب:
جہاں تک جناب اصلاحی صاحب کا ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘ کے حوالہ سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول کو نقل کرنے کا تعلق ہے تو جاننا چاہیے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے کلمہ ’’ضعیف‘‘ سے مراد ’’حسن‘‘ اور فضائل اعمال وغیرہ کی روایتوں میں ’’تساہل‘‘ سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو ’’راجح‘‘ ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، شاطبی الغرناطی رحمہ اللہ، زین الدین عراقی رحمہ اللہ، ابن قیم رحمہ اللہ، ابن علان رحمہ اللہ، سخاوی رحمہ اللہ، محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ، احمد محمد شاکر رحمہ اللہ، محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ، محمد بن لطفی الصباغ، ظفر احمد تھانوی عثمانی اور محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ وغیرہم نے بیان کیا ہے۔
علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ ’’اختصار علوم الحدیث‘‘ لابن کثیر کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’امام احمد بن حنبل، عبدالرحمان بن مہدی اور عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ کا یہ فرمانا کہ: جس وقت حلال و حرام کے بارے میں ہم سے کوئی روایت کی جاتی ہے تو ہم اس پر شدت اختیار کرتے ہیں اور جب فضائل وغیرہ کے بارے میں روایت کی جاتی ہے تو ہم اس میں تساہل کرتے ہیں۔ تو اس قول سے ان کی مراد وہ چیز ہے جو راجح ہے، واللہ أعلم۔‘‘ [3]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام احمد وغیرہ بعض علماء نے فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کی روایت کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ ان کا کذب پایہ ثبوت کو پہنچا ہوا ہو، اور اس وجہ سے ہے کہ جب کوئی عمل شرعی دلیل سے ثابت ہو جائے کہ مشروع ہے اور اس کی فضیلت میں ضعیف حدیث روایت کی گئی ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ثواب درست ہو گا، لیکن کسی امام نے
|