Maktaba Wahhabi

139 - 363
اعمش رحمہ اللہ (م 147ھ) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’جالست اياس بن معاوية فحدث بحديث، فقلت عمن تذكر هذا؟ فضرب لي مثل رجل من الخوارج فقلت: أنّي تضرب هذا المثل تريد أن أكنس الطريق بثوبي فلا أدع بعرة ولا خنفساءة إلا حملتها‘‘ [1] ابن ابی الزناد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ہشام بن عروہ (م 146ھ) نے کہا: ’’إذا حدثت بحديث أنت منه في ثبت فخالفك إنسان فقل: من حدثك بذا فإني حدثت بحديث فخالفني فيه رجل، فقلت هذا حدثني به أبي فأنت من حدثك؟ فجف‘‘ [2] اور خالد بن خداش رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’لما ودعت مالك بن انس قال لي اتق اللّٰه وانظر ممن تأخذ هذا الشأن‘‘ [3] طلب حدیث اور علو سند کے شوق میں اسلاف کا طویل سے طویل سفر فرمانا: چونکہ ائمہ نقاد حدیث کے ذہنوں میں یہ بات رچ بس گئی تھی کہ اسناد روایت، حدیث کا جزء لا يتجزأ ہے لہٰذا جہاں وہ معین اسلوب کے مطابق اس کی خوب جانچ پڑتال کیا کرتے تھے، وہیں صحیح سنت نبوی کے حصول نیز علوم سند کی طلب میں طویل سے طویل تر سفر بھی کیا کرتے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح سنت کے حصول میں سند کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور محدثین نے طول طویل مسافات کے اسفار کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، بعض بعض اوقات تو صرف ایک ہی حدیث کی تڑپ انہیں دور دراز مقام پر لے گئی ہے۔ عہد رسالت میں اطراف عرب سے مختلف قبائل کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ضروری تعلیم حاصل کر کے واپس چلے جاتے تھے۔ عہد نبوی کے بعد بھی بارہا ایسے واقعات پیش آئے کہ ایک ایک حدیث کی خاطر صحابہ کرام نے ایک ایک ماہ کی مسافت طے کر ڈالی ہے۔ محدثین نے ان اسفار کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی قابل قدر تصانیف میں اس عنوان پر مستقل ابواب قائم کئے ہیں، مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع الصحیح میں اس بارے میں دو ابواب یوں قائم کئے ہیں: ’’باب الخروج فی طلب العلم‘‘، اور ’’باب الرحلة في المسئله النازلة‘‘۔ (یعنی جو مسئلہ پیش آ جائے اسے دریافت کرنے کے لئے سفر کرنا)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ’’باب الرحلة في طلب العلم والعناء فيه‘‘۔ یعنی (طلب علم کی غرض سے سفر کرنا اور اس میں مشقت اٹھانی) کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تو اس موضوع پر ’’الرحلۃ فی طلب العلم‘‘ نامی ایک مستقل رسالہ ہی تصنیف فرمایا ہے۔ ذیل میں
Flag Counter