’’ایک شخص نے حسن بصری سے ان کی مراسیل کے متعلق دریافت کیا کہ اے ابو سعید! آپ یوں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حالانکہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہ پایا تھا۔ آں رحمہ اللہ نے جواب دیا: اے میرے بھتیجے! تو نے مجھ سے ایسی چیز کے متعلق پوچھا ہے جو تجھ سے پہلے کسی نے مجھ سے نہ پوچھی تھی۔ پھر آپ نے اس کو بتایا کہ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور آں رحمہ اللہ نے اس کو سند حدیث کی چھان بین سے منع نہیں فرمایا الخ‘‘۔ [1]
’’امام شعبی رحمہ اللہ، ربیع بن خثیم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: جو شخص ’’لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت وھو علی کل شیء قدیر‘‘ کہے تو اس کو اتنا اور اتنا اجر ہے۔ شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا: یہ حدیث آپ کو کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے فرمایا: عمرو بن میمون نے، پھر میں نے پوچھا: اور انہیں کس نے بیان کی؟ تو فرمایا کہ ابو ایوب صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‘‘۔[2]
عتبہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ وہ امام اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ (م 136ھ) کے پاس موجود تھے۔ امام زہری رحمہ اللہ (م 125ھ) بھی ان کے پاس موجود تھے۔ ابن ابی فروہ نے کہنا شروع کیا: ’’قال رسول للّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘، تو امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’قاتلك اللّٰه يا ابن أبي فروة، ما أجرأك علي اللّٰه ما تسند حديثك، تحدثنا بأحاديث ليس لها خطم ولا أزمة‘‘ [3]
ابو اسحاق ابراہیم بن عیسیٰ الطالقانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! ایک حدیث اس طرح آئی ہے: ’’ان من البر بعد البر أن تصلي لأبويك مع صلاتك و تصوم لهما مع صومك‘‘تو عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! یہ حدیث کس سے منقول ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ شہاب بن خراش کی حدیث میں سے ہے، تو انہوں نے فرمایا: وہ تو ثقہ ہے، لیکن نقل کس سے کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا: الحجاج بن دینار سے، انہوں نے فرمایا: وہ بھی ثقہ ہے، اور وہ کس سے نقل کرتا ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، تو عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’يا ابا إسحق إن بين الحجاج بن دينار و بين النبي صلي اللّٰه عليه وسلم مفاوز تنقطع فيها أعناق المطي‘‘ یعنی ’’اے ابو اسحاق! حجاج بن دینار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اتنے بڑے میدان حائل ہیں کہ جس کے درمیان سواریوں کی گردنیں کٹ سکتی ہیں‘‘۔[4]
|