نبی صلی اللہ علیہ وسلم – کوئی عمل کر رہے ہیں یا کسی چیز کی تصویب (تقریر) فرما رہے ہیں تو ہزاروں لوگ اس کے شاہد ہیں۔ وہ اپنے مشاہدہ کو دوسروں کے آگے بیان کرتے ہیں تاکہ ہر مسلمان اس سے واقف ہو جائے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو آنکھوں کی گردش اور لقمہ اٹھانے کا انداز تک بھی امت کے لئے نمونہ ہے۔ اب اگر ان بیان کرنے والوں پر یہ قید عائد کر دی جاتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ان کے اپنے الفاظ ہی میں روایت کریں یعنی روایت بالالفاظ ہی الخ‘‘۔ میں پوچھتا ہوں کہ جو عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہوتے یا جو عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیا جا رہا ہوتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نکارت نہیں فرماتے اور ہزارہا لوگ ان چیزوں کا مشاہدہ کر رہے ہوتے وہ آخر ان چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ میں کس طرح روایت کر سکتے تھے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی گردش اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقمہ اٹھانے کے انداز کی بھی کوئی زبان ہوتی تھی؟ اگر نہیں تو پھر آخر ان چیزوں کے متعلق بالالفاظ روایت کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟
آگے چل کر محترم اصلاحی صاحب لکھتے ہیں:
’’میرے نزدیک اس شرط کی ضرورت بھی نہیں تھی اس لئے کہ قرآن کی کسوٹی موجود ہے۔ اگر قرآن کی تدوین میں، -- معاذ اللہ کوئی خرابی پیدا ہو جاتی تو دین کی ہر چیز میں خرابی پیدا ہو جاتی – اس میں ذرا سی بھی غلطی اور چوک ’’تاثر یامی رود دیوارکج‘‘ کے مصداق بڑے خطرناک نتائج برآمد کر دیتی۔ اس کے برعکس اگر حدیث میں کوئی نقص رہ جاتا تو اس کو قرآن مجید اور سنت عملی کی کسوٹی پر پرکھ کر درست کیا جا سکتا تھا۔ سنت نبوی کی ترویج کے لئے قابل عمل طریقہ یہی تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے، ان کے عمل، ان کے قول اور ان کی تصویب کو زیادہ سے زیادہ روایات کی شکل میں محفوظ کر لیا جائے اور روایت میں اگر کوئی کمزوری راہ پا جائے تو اسے قرآن کی کسوٹی پر پرکھ کر درست کر لیا جائے۔ چنانچہ ذخیرہ روایات کا غالب حصہ بالمعنی روایت پر مبنی ہے‘‘۔ [1]
ان سطور میں محترم اصلاحی صاحب نے صحت حدیث پرکھنے کے لئے قرآن مجید کو کسوٹی قرار دیا ہے حالانکہ حدیث کو قرآن مجید یا سنت عملی کی خود ساختہ کسوٹی پر پیش کرنا خلاف اصول ہے۔ یہ تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ ان شاء اللہ آگے باب ہشتم: ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لئے اساسی کسوٹیاں – اصلاحی صاحب کی نظر میں (تیسری کسوٹی: قرآن مجید، ایک جائزہ)‘‘ اور باب نہم: ’’تدبر حدیث کے چند بنیادی اصول – اصلاحی صاحب کی نظر میں (پہلا بنیادی اصول – قرآن مجید ہی امتیاز کی کسوٹی ہے)‘‘ کے تحت قرآن مجید کے معیار حدیث نہ ہونے کے متعلق عقلی و نقلی دلائل پیش کئے جائیں گے۔
روایت بالمعنی کی مشروط اجازت
اس عنوان کے تحت جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’الكفاية في علم الرواية‘‘ کے مصنف، خطیب بغدادی نے اپنی کتاب کے باب ’’ذكر الحجة في
|