اسوہ کامل اور آئیڈیل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو آنکھوں کی گردش اور لقمہ اٹھانے کا انداز تک بھی امت کے لئے نمونہ ہے۔ اب اگر ان بیان کرنے والوں پر یہ قید عائد کر دی جاتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ان کے اپنے الفاظ ہی میں روایت کریں، یعنی روایت بالالفاظ ہی ہو تو میرا خیال ہے کہ علم نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پچانوے فی صد غائب ہو جاتا اور یہ امت کے لئے عظیم سانحہ اور بڑا خسارہ ہوتا‘‘۔ [1]
ان سطور کے مرکزی خیال سے راقم کو مکمل اتفاق ہے اور یہ وہی چیز ہے جو باب اول کے عنوان ’’وحی کا کچھ حصہ الفاظ میں اور کچھ معانی میں نازل کئے جانے کی مصلحت‘‘ کے تحت بیان کی جا چکی ہے، لیکن منقولہ بالا اقتباس میں چند ایسی چیزیں بھی آ گئی ہیں جو نہ صرف یہ کہ خلاف واقعہ ہیں بلکہ انتہائی مضر بھی ہیں، مثال کے طور پر فرماتے ہیں: ’’قرآن و حدیث کے کام کی نوعیت میں بڑا فرق تھا۔ دین میں دونوں کے مقام اور حیثیت میں بھی بڑا فرق ہے‘‘۔ حالانکہ استنباط مسائل کے لئے شریعت میں قرآن و حدیث کا مقام قطعی طور پر ایک ہی ہے۔ ان دونوں کے دائرہ کار یا کام کی نوعیت یا مقام و حیثیت کے اعتبار سے ان کے مابین فرق کرنا درست نہیں بلکہ باطل ہے۔ سنت پر قرآن کریم کی تقدیم کی جو وجوہ عموماً بیان کی جاتی ہیں وہ تمام کی تمام ناقابل استدلال ہیں۔ تفصیل کے لئے باب اول کے ذیلی عنوان ’’اصول شریعت میں حدیث و سنت کی ثانوی حیثیت ناقابل قبول ہے‘‘ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
دوسری خلاف واقعہ بات یہ ہے کہ ’’اگر یہی پابندی روایت حدیث سے متعلق بھی کر دی جاتی تو یہ ایک ناممکن ہدف ہوتا الخ‘‘۔ حالانکہ جن لوگوں کو علوم حدیث پر بصیرت حاصل ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جہاں ضروری سمجھا گیا وہاں روایت حدیث کے متعلق بھی یہ پابندی قائم ہے، مثال کے طور پر تکبیر، تشہد، اذان، شہادت، ادعیہ مسنونہ اور وہ چیزیں جن کا تعلق جوامع الکلم سے ہے ان سب کی روایت کے لئے الفاظ کی قید لازمی ہے۔
تفصیل کے لئے باب رواں (حصہ اول) کے عنوان ’’روایت بالمعنی کے جواز کے لئے شراط‘‘ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
تیسری خلاف واقعہ بات یہ ہے کہ حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ روایت بالمعنی پر مشتمل ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’—جو حکمت نبوی کے ایک بڑے ذخیرہ سے محروم کر دیتا‘‘۔ آگے چل کر آنجناب نے اس بڑے ذخیرہ کی تعیین بھی فرما دی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ علم نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پچانوے فی صد غائب ہو جاتا اور یہ امت کے لئے عظیم سانحہ اور بڑا خسارہ ہوتا‘‘ – گویا ذخیرہ احادیث کا پچانوے فیصد حصہ بالمعنی مروی ہے۔ اس خام خیالی پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے، لہٰذا اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ خود اصلاحی صاحب محترم نے لکھا ہے کہ ’’--
|