نشاندہی کی جائے اور وہ فطری طریقے تجویز کئے جائیں جو تحقیق حق میں معین ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم روایات کے بالمعنی ہونے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور اس کے بعض مضمرات کا بھی جائزہ لیں گے۔ یہ اس لئے کہ ذخیرہ احادیث کا بہت بڑا حصہ انہی روایات پر مشتمل ہے جو روایت باللفظ کے بجائے روایت بالمعنی ہی کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں‘‘۔ [1]
ان سطور میں محترم اصلاحی صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں راقم کو دو قابل وضاحت چیزیں نظر آتی ہیں۔ پہلی (1) تو یہ کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہی سند اور متن پر مشتمل نہیں ہوتیں بلکہ سند اور متن ہر حدیث کے دو لازمی جزو ہیں، خواہ اس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہو یا کسی اور سے۔ اور دوسری (2) قابل وضاحت چیز یہ ہے کہ محترم اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ کہ ’’ذخیرہ احادیث کا بہت بڑا حصہ انہی روایات پر مشتمل ہے جو روایت باللفظ کے بجائے روایت بالمعنی ہی کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہیں‘‘۔ دراصل علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ ’’اکثر احادیث بالمعنی مروی ہیں‘‘۔[2]لیکن ذخیرہ احادیث کے بہت بڑے حصے کو روایت بالمعنی پر مشتمل بیان کرنا خلاف واقعہ ہے جیسا کہ رواں باب کے حصہ اول میں عنوان ’’اکثر احادیث کے بالمعنی مروی ہونے کی حقیقت‘‘ کے تحت واضح کیا جا چکا ہے۔
آگے چل کر محترم اصلاحی صاحب روایت بالمعنی کی معقولیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’روایت حدیث کا بالمعنی ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کوئی معقول آدمی اعتراض کر سکے۔ احادیث کے لئے قرآن کی طرح الفاظ کی پابندی کے ساتھ روایت کی قید اس کام کو بالکل ناممکن بنا دیتی۔ قرآن و حدیث کے کام کی نوعیت میں بڑا فرق تھا دین میں دونوں کے مقام اور حیثیت میں بھی بڑا فرق ہے۔ قرآن مجید کی روایت کے لئے الفاظ کی قید لازمی ہے۔ اگر یہی پابندی روایت حدیث سے متعلق بھی کر دی جاتی تو یہ ایک ناممکن ہدف ہوتا جو حکمت نبوی کے ایک بڑے ذخیرہ سے محروم کر دیتا۔
جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو وہ جبریل امین علیہ السلام، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کاتبین وحی، تینوں کا مشترکہ معاملہ ہے۔ جبریل امین علیہ السلام اسے لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ نازل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبین وحی کو اس کو ضبط کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس کے برعکس احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، جلوت میں، خلوت میں، بازار کے اندر، گھر کے اندر، مسجد کے اندر، جہاد کے دوران میں، سفر میں، حضر میں غرض ہر جگہ اور ہر وقت کوئی بات فرما رہے ہیں، کوئی عمل کر رہے ہیں یا کسی چیز کی تصویب فرما رہے ہیں تو ہزاروں لوگ اس کے شاہد ہیں۔ وہ اپنے مشاہدہ کو دوسروں کے آگے بیان کرتے ہیں تاکہ ہر مسلمان اس سے واقف ہو جائے اس لئے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لئے
|