روایت بالمعنی کے بعض مضمرات
اصلاحی صاحب کی نظر میں
]یہ باب بھی حسب سابق جناب اصلاحی صاحب کے ایک مضمون پر مشتمل ہے جو رسالہ ’’تدبر‘‘[1]لاہور میں شائع ہو چکا ہے۔ اس باب میں جناب اصلاحی صاحب نے ’’روایت بالمعنی اور اس کے بعض مضمرات‘‘ کے زیر عنوان بزعم خود ’’متن حدیث پر بحث‘‘ کرتے ہوئے روایت بالمعنی کے ’’بعض کمزور پہلوؤں‘‘ کی نشاندہی کی ہے اور ’’وہ فطری طریقے تجویز کئے (ہیں) جو تحقیق حق میں معین ہو سکتے ہیں‘‘۔[
روایت بالمعنی کا وہ ’’کمزور پہلو‘‘ جس کا ذکر محترم اصلاحی صاحب نے بہت زوروشور سے کیا ہے کوئی نیا نہیں بلکہ اسے ذخیرہ احادیث کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے ایک زمانہ سے پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ ’’کمزور پہلو‘‘ جناب اصلاحی صاحب کے الفاظ میں ’’روایت بالمعنی میں غلطی کا احتمال‘‘ ہے یعنی ’’اس لیے کہ ذخیرہ احادیث کا بہت بڑا حصہ انہی روایات پر مشتمل ہے جو روایت باللفظ کے بجائے روایت بالمعنی ہی کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں‘‘ اس لئے اس میں شک و شبہ کی گنجائش موجود ہے۔ چونکہ قرآن مجید کی طرح احادیث نبوی کے الفاظ و معانی ہم تک بعینہ اور محفوظ شکل میں منتقل نہیں ہوئے ہیں لہٰذا اس بات کا امکان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کو ان راویوں نے کچھ کا کچھ سمجھ لیا ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حدیث کے معانی و مطالب کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے سبب ان سے غلطی صادر ہو گئی ہو یا راوی نے ادائے مطلب کے وقت موقع و محل کی تمام خصوصیتیں ملحوظ رکھیں بھی یا نہیں، اس بات کی کوئی واضح ضمانت نہیں ہوتی۔ بہرحال ذیل میں ہم اس باب کے مندرجات، بالخصوص روایت بالمعنی کے ’’کمزور پہلوؤں‘‘ نیز فطری تحقیق کے لئے مجوزہ ’’فطری طریقوں‘‘ کا جائزہ پیش کریں گے۔
جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سند اور متن پر مشتمل ہوتی ہیں، چنانچہ کسی حدیث کے صدق و کذب کے فیصلے میں اس کی سند اور اس کے متن، دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔ ان دونوں کے، علم حدیث کے سلسلے میں، اہم عامل ہونے سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔
جہاں تک اس کے اولین عامل، یعنی سند کا تعلق ہے اس پر جامع بحث ہم ’سند کی عظمت اور اس کے بعض کمزور پہلو‘ کے تحت کر چکے ہیں۔ اب ہم متن حدیث پر بحث کریں گے تاکہ اس کے بعض کمزور پہلوؤں کی
|