نے بیان کیا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الجامع الصغیر‘‘[1]میں وارد کر کے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس حدیث میں تمام آفت کی جڑ اس کا راوی مسعدہ بن صدقہ ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مسعدہ کے ترجمہ میں وارد کرنے کے بعد اس پر ’’موضوع‘‘[2]کا حکم لگایا ہے۔ علامہ مناوی رحمہ اللہ علامہ سیوطی پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن یہ فقط ضعیف نہیں ہے بلکہ میزان میں تو اسے موضوع کہا گیا ہے‘‘۔[3]علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’لسان المیزان‘‘ میں، علامہ محمد درویش حوت البیروتی رحمہ اللہ نے ’’أسنی المطالب‘‘[4]میں اور شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے ’’سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة‘‘[5]اور ’’ضعيف الجامع الصغير‘‘ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے راقم کی کتاب ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘[6]کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
صحت حدیث کے لئے اسناد کی تلاش – اسلاف کا منہج ہے:
امام ذہبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے حدیث کو قبول کرنے میں احتیاط فرمائی تھی۔ ابن شہاب نے قبیصہ بن ذویب سے روایت کی ہے کہ: ’’کسی شخص کی دادی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی وراثت کے بارے میں سوال کرنے آئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مجھے تیرے لئے کتاب اللہ میں کوئی حکم نہیں ملتا اور نہ ہی مجھے علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے بارے میں کوئی حکم فرمایا ہو۔
پھر آں رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں صحابہ سے دریافت کیا تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دادی کو چھٹا حصہ دیتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تیرے ساتھ کسی اور کو بھی یہ حدیث معلوم ہے؟ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسی کے مثل شہادت دی پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے لئے اس حکم کو نافذ کیا ‘‘۔ [7]
اسی طرح جریری نے بطریق ابی نضرہ عن ابی سعید رضی اللہ عنہ روایت کی ہے کہ:
|