میں اس سے ہرگز روایت نہ کرتا۔‘‘ مصعب فرماتے ہیں: ’’ثقہ مامون تھا‘‘، یزید بن ہارون اور ابو عبید رحمہما اللہ نے بھی واقدی کی توثیق کی ہے۔ لیکن اس بارے میں قطعی بے غبار بات وہ ہے جو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یوں بیان کی ہے: ’’استقر الإجماع علي وهن الواقدي‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’متروك مع سعة علمه‘‘ واقدی کے تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ [1] کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
اسی باعث حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولا يصح هذا عن ابن المسيب ففي الإسناد إليه محمد بن عمر الواقدي ضعيف في الحديث‘‘ [2]
آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کے کلام پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’إن المصنف علق القول بصحة ذلك عن سعيد بن المسيب وهو لا يصح عنه فإن في الإسناد إليه محمد بن عمر الواقدي وهو ضعيف في الحديث‘‘ [3]
اسی طرح علامہ سخاوی فرماتے ہیں:
’’سعید بن المسیب کی اس روایت کی صحت پر توقف ظاہر ہے کیونکہ ابن سعد نے اس کی تخریج واقدی کے طریق سے کی ہے اور وہ حدیث روایت کرنے میں ضعیف ہے۔ پھر ابن سعد کی روایت میں ’’او‘‘ (بمعنی یا) کے ساتھ یہ الفاظ: ’’أو غزا معه غزوة أو غزوتين‘‘ – دوسرے مذہب یعنی طول مصاحبت کی طرف ترجیع کے مشابہ ہیں۔ ابن سعد نے آں رحمہ اللہ سے یہ بھی روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’رأيت أهل العلم يقولون غير ذلك و يذكرون جرير بن عبداللّٰه و إسلامه قبل وفاة النبي صلي اللّٰه عليه وسلم بخمسة أشهر أو نحوها‘‘ [4]
4- چوتھا قول
بعض علماء کے نزدیک صحابی کے لئے طول صحبت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’اخذ‘‘ بھی شرط ہے،
|