Maktaba Wahhabi

277 - 363
محدثین کا غیر احکامی روایات میں تساہل فرمانے کا اصل سبب: محدثین کرام کے اس تساہل کے اسباب کے متعلق جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ بھی قطعی بے بنیاد اور بلا دلیل ہے کہ ترغیب و ترہیب کی کمزور روایات کو مفید سمجھا گیا کہ ان کے باعث لوگ نیکی کی طرف رجوع کریں۔ فضائل کی روایات سے بھی نیکی کے عمل کو مہمیز ملتی تھی اس لئے ان کو سند کے ضعف کے باوجود کتابوں میں جگہ دے دی گئی الخ۔‘‘ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ بعض حفاظ حدیث نے صرف ترغیب و ترہیب یا فضائل کے بارے ہی میں نہیں بلکہ احکام اور حلال و حرام وغیرہ کے ابواب میں بھی ضعیف احادیث کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، لہٰذا جناب اصلاحی صاحب کا فقط ترغیب و فضائل وغیرہ کے لئے ہی اس کی تخصیص فرمانا خلاف واقعہ ہے۔ ان میں سے بعض محدثین وہ ہیں جنہوں نے کمزور روایات کو ’’حسن الاسناد‘‘ ہونے کی بناء پر قبول کیا تھا۔ چونکہ ان کا مقام درجہ صحت سے فروتر تھا اس لئے وہاں ’’تساہل‘‘ اختیار کرنا بیان کیا گیا، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ بعض محدثین مثلاً امام احمد بن حنبل، امام ابو داود اور امام نسائی وغیرہم نے اس باب میں کوئی دوسری صحیح روایت نہ پا کر باطل و منکر اور موضوع کے علاوہ کم ضعف والی روایات کو بھی قبول کیا ہے، جیسا کہ حاشیہ [1] کے تحت درج شدہ کتب میں مذکور ہے۔ البتہ حفاظ میں سے بعض متأخرین نے ضعیف روایات کو تکثیر احادیث کی طلب اور احادیث نبوی کی زیادہ سے زیادہ تحفیظ کی حرص میں بلا تمیز اپنی تصانیف میں جگہ دے دی ہے۔ لیکن ان کے نزدیک بھی اس بارے میں فضائل اعمال یا ترغیب و ترہیب یا ایسی روایات کہ جن سے ’’نیکی کے عمل کو مہمیز ملتی‘‘ ہو اور حلال و حرام یا احکام سے متعلق احادیث کے مابین کوئی واضح تخصیص نہیں تھی اور نہ ہی محترم اصلاحی صاحب کا بیان کردہ لوگوں کو ’’نیکی کی طرف رجوع‘‘ کروانے کا اعلیٰ مقصد ان کے پیش نظر تھا۔ اگر کبھی ایسا ہوا بھی ہے تو وہ محض اتفاق ہے۔ جہاں تک قدماء محدثین کے ضعیف روایات کو درج کتاب کرنے کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں وہ اس لئے حق بجانب تھے کہ اگر ان روایات کو وہ اپنی کتب میں جگہ نہ دیتے تو ہم صحیح و سقیم کے مابین کسی طرح امتیاز کر پاتے؟ واضح رہے کہ بیشتر ائمہ نے ایسی احادیث کو درج کرنے کے بعد ان کے ضعف کی صراحت کا اہتمام بھی فرمایا ہے، فجزاہم اللہ أحسن الجزاء۔
Flag Counter