بھی یہ نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے کوئی عمل بھی واجب یا مستحب قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو کوئی یہ کہتا ہے وہ اجماع کا مخالف ہے۔ اسی طرح کوئی چیز بغیر شرعی دلیل کے حرام قرار نہیں دی جا سکتی، لیکن اگر حرمت ثابت ہو گئی پھر اس کی وعید میں کوئی حدیث روایت کی گئی تو اس کی روایت روا ہے بشرطیکہ اس کا جھوٹ ثابت نہ ہو چکا ہو۔ اس بناء پر ترغیب و ترہیب میں غیر موضوع احادیث کی روایت جائز ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ دوسرے قوی دلائل سے معلوم ہو گیا ہو کہ اللہ عزوجل کی جانب سے اس فعل کی ترغیب یا ترہیب ہوئی ہے ورنہ نہیں۔‘‘ [1]
امام ابن قیم رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’چوتھا اصول مرسل اور ضعیف حدیث کو لینے کے متعلق ہے، اگر اس باب میں کوئی چیز موجود نہ ہو۔ یہ وہ چیز ہے جس کو امام رحمہ اللہ نے قیاس پر ترجیح دی ہے یا اسناد میں تساہل سے تعبیر کیا ہے، لیکن ان کے نزدیک ضعیف حدیث سے مراد نہ باطل ہے نہ منکر اور نہ ہی وہ روایات جن میں کہ متہم بالکذب رواۃ موجود ہوں، بلکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث قسیم الصحیح اور حسن کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کہ اس وقت حدیث کو صحیح، حسن اور ضعیف میں تقسیم نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ اس زمانہ میں فقط ’’صحیح‘‘ اور ’’ضعیف‘‘ کی دو اصطلاحات ہی رائج تھیں، پھر ضعیف میں بھی ان کے نزدیک مراتب ہوتے تھے الخ۔‘‘ [2]
حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعض محققین بیان کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ضعیف سے مراد وہ حدیث ہوتی تھی جو درجہ صحت پر پہنچنے سے قاصر یعنی حسن ہو۔‘‘ [3]
اور محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میرے نزدیک اس تساہل کو اختیار کرنے کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی عادت کے پیش نظر ان کے تساہل کو ان روایتوں پر محمول کیا جائے جو متصل الاسانید ہوں۔ یہ وہ اسانید ہیں کہ جن سے احادیث کے ضعف کی معرفت ممکن ہے پس فقط سند کا ذکر کر دینا بھی ضعیف حدیث کی تصریح سے مستغنی کر دیتا ہے برخلاف ان لوگوں کے جو احادیث کو بغیر اسانید کے روایت کرتے ہیں – پس وہ لوگ اس معاملہ میں کوئی غفلت برتنے کے بجائے اللہ عزوجل کا تقویٰ زیادہ اختیار کرنے والے تھے، واللہ أعلم۔‘‘ [4]
مزید تفصیلات کے لئے راقم کی کتاب ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘[5]کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
|