جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جرح ضرورت شرعیہ کے لئے جائز ہے لہٰذا فوق الحاجت جرح جائز نہیں ہے‘‘۔ [1]
اور جناب انور بدخشانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جارح کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف بقدر ضرورت جرح کرے کیونکہ یہ ضرورت کی بنا پر جائز سمجھی گئی ہے اور جو چیز ضرورت کی بنا پر جائز ہوتی ہے وہ صرف بقدر ضرورت ہی جائز ہوتی ہے‘‘۔ [2]
2- علماء نے جرح و تعدیل کے وقت راوی کو اس کے لقب یا وصف یا نسب مثلاً اعمش، اعرج، احول، اعمی، اصم، اشرم، ابن علیہ وغیرہ سے پکارنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ اس سے مراد اس راوی کی تعریف ہو نہ کہ تنقیص، تحقیر، تذلیل و تشہیر۔ یہ بھی اسی طرح صرف حاجت کے لئے جائز ہے جس طرح کہ جرح حاجت کے لئے جائز کی گئی ہے‘‘۔ [3]
3- وہ اشخاص جن سے کوئی حدیث مروی نہ ہو تو وہ موجب جرح نہیں ہیں لہٰذا ناقدین کو شرعاً ان پر جرح سے خاموشی اختیار کرنا واجب ہے۔ [4] چنانچہ ابن السمعانی سے بعض شعراء پر منقول قدح پر تعاقب کرتے ہوئے علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إذا لم يضطر إلي القدح فيه للرواية لم يجز‘‘ [5]
4- اگر کسی راوی کے متعلق جرح و تعدیل دونوں قسم کے اقوال مروی ہوں تو امانت کا تقاضہ ہے کہ جرح نقل کرتے ہوئے تعدیل کے اقوال بھی ذکر کئے جائیں۔ تاکہ محدثین ان کے مابین ترجیحات کا فیصلہ کر سکیں‘‘۔ [6]
فن جرح و تعدیل کی نزاکت:
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فن جرح و تعدیل کی نزاکت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وليحذر المتكلم في هذا الفن من التساهل في الجرح والتعديل فإنه إن عدل بغير تثبت كان كالمثبت حكما ليس بثابت فيخشي عليه أن يدخل في زمرة من روي حديثا وهو يظن أنه كذب و إن جرح بغير تحرز أقدم علي الطعن في مسلم برئ من ذلك ووسمه بميسم
|