(10) ’’قَالَ بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ سَمِعْتُ نَبِيَّ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَلا إِنَّكُمْ تُوفُونَ سَبْعِينَ أُمَّةً، أَنْتُمْ خَيْرُهَا، وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘ [1]
اور
(11) ’’عَنْ وَاثِلَة مَرْفُوْعاً: لا تَزَالُونَ بِخَيْرٍ مَا دَامَ فِيكُمْ مَنْ رَآنِي وَصَاحَبَنِي وَاللّٰهِ لا تَزَالُونَ بِخَيْرٍ مَا دَامَ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي وَصَاحَبَ مَنْ صَاحَبَنِي‘‘ [2]
ان چند احادیث کے علاوہ اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں، اگر ان سب کو یہاں نقل کیا جائے تو بات بہت طویل ہو جائے گی، لہٰذا ہم انہیں چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
صحابہ کرام کی تعدیل و تفضیل کے بارے میں ائمہ حدیث اور علمائے امت کا موقف:
جب اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعدیل فرما دی، تو اس بات کی کوئی حاجت باقی نہیں رہ جاتی کہ کسی امتی سے ان کی عدالت نقل کی جائے مگر پھر بھی اتمام حجت کے پیش نظر ذیل میں ہم چند ائمہ حدیث اور مشاہیر علمائے امت کے اقوال پیش کرتے ہیں:
1- صحابہ کرام کی عدالت کے لئے امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: ’’يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ ۔الخ‘‘ سے کیا خوب نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: ’’اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے کہ دجال کذاب آخر زمانہ میں ہوں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولیں گے، پس معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جملہ سے خارج ہیں، چنانچہ کذب کی تہمت ان پر سے زائل ہوئی۔‘‘ [3]
2- اسی طرح امام ابن حبان البستی رحمہ اللہ نے رسول اللہ کی حدیث: ’’أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمْ الْغَائِبَ‘‘[4]سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: ’’یہ حدیث اس بات کی بڑی دلیل ہے کہ صحابہ کرام عدول ہیں، ان
|