سوء يبقي عليه عاره أبدا والآفة تدخل في هذا تارة من الهوي والغرض الفاسد و كلام المتقدمين سالم من هذا غالبا و تارة من المخالفة في العقائد وهو موجود كثيرا قديما و حديثا ولا ينبغي اطلاق الجرح بذلك فقد قدمنا تحقيق الحال في العمل برواية المبتدعة‘‘ [1]
یعنی ’’جرح اور تعدیل کے معاملہ میں تساہل سے کام لینا بڑا خطرناک امر ہے کیونکہ اگر ثبوت کے بغیر کسی راوی کی توثیق کر دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ایک خلاف واقع چیز کو حکماً واقع کے مطابق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے میں اس بات کا خوف ہے کہ وہ راوی حدیث روایت کرنے والوں کے زمرہ میں داخل ہو جائے حالانکہ وہ کذاب ہے، اسی طرح اگر ثبوت کے بغیر کسی راوی کو مجروح قرار دے دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم ایک پاکباز مسلمان پر ناروا الزام عائد کر رہے ہیں اور اس کی عزت پر بدنامی کا ایسا دھبہ لگا رہے ہیں جو قیامت تک نہ مٹے گا۔ جرح و تعدیل کے معاملہ میں جب کوئی غیر منصفانہ فیصلہ کیا جاتا ہے تو عام طور پر یہ کسی بری خواہش اور فاسدنیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ متقدمین کا اکثر کلام اس عیب سے پاک تھا۔ بعض دفعہ کسی راوی کی عدالت و ضبط پر اختلاف عقائد کی وجہ سے حملہ کیا جاتا ہے اور یہ قدیم و جدید ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ اس پر جرح کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر ہم روایت مبتدع کی فصل میں کافی روشنی ڈال چکے ہیں‘‘۔
حافظ سخاوی رحمہ اللہ اپنے شیخ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی اتباع میں فرماتے ہیں:
’’فالجرح والتعديل خطر لأنك إن عدلت بغير تثبت كنت كالمثبت حكما ليس بثابت فيخشي عليك أن تدخل في زمرة من روي حديثا وهو يظن أنه كذب و إن جرحت بغير تحرز أقدمت علي الطعن في مسلم بريء من ذلك ووسمته بميسم سوء يبقي عليه عاره أبدا وهو في الجرح بخصوصه – فإن فيه مع حق اللّٰه و رسوله حق اٰدمي‘‘ [2]
حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ توثیق و تجریح رواۃ کی نزاکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وليحذر المتصدي لذلك من الغرض في جانبي التوثيق والتجريح فالمقام خطر‘‘ [3]
علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ کا ایک قول جو اوپر ’’جرح کی حدود‘‘ کے تحت گزر چکا ہے اس فن کی نزاکت کو بخوبی سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
معدل کے تزکیہ کی کس کو حاجت ہے اور کس کو نہیں؟
اس بارے میں علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک باب یوں قائم کیا ہے: ’’باب في المحدث المشهور
|