بالعدالة والثقة والأمانة لا يحتاج إلي تزكية المعدل‘‘ یعنی ’’ان محدثین کا باب جو عدالت، ثقاہت، اور امانت کے لئے مشہور ہیں اور کسی معدل کے تزکیہ کے محتاج نہیں ہیں‘‘ اور اس کے تحت لکھتے ہیں:
’’مثال کے طور پر مالک بن انس، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، شعبہ بن الحجاج، ابو عمر، اوزاعی، لیث بن سعد، حماد بن زید، عبداللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان، عبدالرحمٰن بن مھدی، وکیع بن الجراح، یزید بن ھارون، عفان بن مسلم، احمد بن حنبل، علی بن مدینی، یحییٰ بن معین اور وہ تمام محدثین جنہوں نے ان کی نباہت ذکر، استقامت امر، شہرت صدق اور بصیرت فہم کو جاری رکھا، ان سب کی عدالت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ صرف ان کی عدالت کے بارے میں تحقیق کی جائے گی جو کہ مجہول شمار ہوتے ہوں یا جن کا معاملہ سمجھنا طلباء کے لئے دشوار ہو‘‘۔ [1]
قاضی ابوبکر محمد بن الطیب الباقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’شاہد اور مخبر دونوں کو تزکیہ کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے جب کہ وہ عدالت و رضاء کے لئے مشہور نہ ہوں اور ان کا معاملہ مشکل ملتبس ہو نیز ان کی عدالت وغیرہ میں ہر دو طرح کا امکان پایا جاتا ہو‘‘۔ [2]
حنبل بن اسحاق ابن حنبل بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبداللہ یعنی احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو سنا کہ آپ سے امام اسحاق بن راھویہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’مثل إسحاق يسأل عنه؟ إسحاق عندنا إمام من أئمة المسلمين‘‘ [3]
یعنی ’’اسحاق رحمہ اللہ جیسے شخص کے لئے پوچھا جاتا ہے؟ اسحاق رحمہ اللہ تو ہمارے نزدیک مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں‘‘۔
اور حمدان بن سہل بیان کرتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے ابو عبید سے حدیث کے سماع اور حدیث لکھنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’مثلي يسأل عن ابي عبيد؟ أبو عبيد يسأل عن الناس‘‘ [4]
|